ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی
نائن الیون کے بعد اسلام اور اسلام کی علامات خاص طورپر حجاب کے خلاف مغرب کے معتصبانہ رویوں اور میڈیا نے جو بھرپور مہم جاری رکھی ہوئی ہے، بدقسمتی سے اس کا اس طور پر جواب نہ دیا گیا جیسے کہ حق تھا، مگر شرق و غرب میں بیدار ہوتی نوجوان نسل نے اب اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کی ایک علامت حجاب کا بڑھتا ہوا رحجان ہے۔ ایک سفارتی تقریب میں ایک نام نہاد پاکستان دانشور نے بڑے افسردہ لہجے میں بتایا کہ ہمارے زمانے میں تو خال خال یونیورسٹیوں میں حجاب والی لڑکی نظر آتی تھی، اب تو آپ نے زبردستی ایک مہم کے ذریعے ہر طرف حجاب والی بچیوں کو پھیلا دیا ہے۔ میں نے کہا کہ محترم حجاب کسی کو زبردستی نہیں پہنایا جاتا اور یہ حجاب جسے آپ جبر اور قید کی علامت سمجھتے رہے اور سمجھاتے رہے وہ زمانے گزر گئے۔ یہ اکیسویں صدی ہے اور یہ حجاب اب مسلمان عورت کی آزادی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ یہ ہمارا وقار، ہمارا افتخار اور اعتبار بن گیا ہے۔ ہم اسی آخری آسمانی ہدایت کی طرف لوٹ رہے ہیں جس میں ہمیں بشارت دی گئی ہے کہ ایک نبی محترمؐ تمہیں ان بوجھوں سے نجات دینے آئے ہیں جنہیں معاشرے نے تمہارے اوپر لاد دیا تھا اور تمہیں ان زنجیروں سے آزاد کرانے آئے ہیں جنہوں نے تمہیں جکڑ لیا تھا۔
جولائی2004ء کو لندن میں عالمی اسلامی تحریکوں کے رہنما علامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں ایک کانفرنس میں فرانس میں حجاب پر پابندی کے قانون کے خلاف یہ طے کیا گیا کہ چونکہ ستمبر2003ء میں یہ قانون پاس ہوا ہے، اس لئے آئندہ 4 ستمبر2004ء کو پوری دنیا میں عالمی یوم حجاب منایا جائے گا اور اس دن سے 4 ستمبر کو جاب کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ فرانس جسے روشنیوں، خوشبوئوں، فنون اور آزادی کا ملک سمجھا جاتا تھا، اب مسلمانوں کے لیے خوف اور جبر کی علامت بن چکا ہے۔ صرف فرانس پر ہی کیا موقوف، پورے مغرب کی اسلام دشمن پالیسیوں اور خاص طور پر یورپی متعصبانہ رویوں نے مسلمانوں کو غمزدہ کر دیا ہے۔ اسلام فوبیا ایک مستقل اصطلاح بنتی چلی جا رہی ہے۔ یکم جولائی2009ء کو ہماری ایک بہن مردہ الشرمین کو جرمنی میں حجاب کے جرم میں بھری عدالت میں شہید کر دیا گیا اور وہاںکی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس ایک گز کے ٹکڑے نے اب وہ قوت حاصل کر لی ہے کہ کسی کے دبائے نہ دبے گی۔
حجاب کو تو محض ایک گز ٹکڑے کی بنیاد کہا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔یہ تو ایک پورا نظام اخلاق ہے جو ہمارے معاشرے میں حیا کی آبیاری کرتا ہے اور عفت کے چلن کو عام کرتا ہے۔ دراصل ہمارا یہ ایک گز کا ٹکڑا مغرب کی اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھ دیتا ہے اور یہ مقدس اور عفیف حجاب، فیشن اور عریاں تہذیب و ثقافت کو ملیامیٹ کر دینے کا نام ہے جو کہ شیطان کے کارندوں کا روزازل سے محبوب مشغلہ ہے۔ شیطان کا اولین وار ہی حضرت آدم علیہ السلام کو بے لباس کرنا تھا اور آج تک اس کا محبوب ترین ہتھیار یہی ہے کہ وہ بے حجابی کو آراستہ و پیراستہ کرکے عورت کو دھوکہ دیتا ہے اور وہ یہ بھول جاتی ہے کہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر قیمتی چیز ملفوف ہوتی ہے، خول میں محفوظ ہوتی ہے۔ اسے لوگوں کی نظروں سے دور محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی قدر و قیمت برقرار رہے جیسے قیمتی زرو جواہر، جیسے نازک اشیا، جیسے خوبصورت سپیوں میں محفوظ قیمتی موتی وغیرہ۔ ایک برطانوی شہری سے پوچھا گیا کہ آپ کی ملکہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ ملاتی ہے کہ نہیں؟ جواب نہیں ملا، اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ہر ایک سے ہاتھ ملائے۔ اسے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے ہاں ہر عورت ملکہ کا درجہ رکھتی ہے وہ بھی ہر ایک سے نہیں ملتی۔ ہر مبارک چیز کو غلاف میں رکھا جاتا ہے جیسے خانہ کعبہ قرآن کریم اور دوسری متبرک اشیا۔ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی مبارک تخلیق بنایا ہے اور اسے بھی غلاف اور حجاب میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
علامہ اقبال حجاب کی مصلحت یہ بتاتے ہیں کہ اللہ خود خالق ہے اور اس نے اپنی یہ صفت تخلیق صرف عورت کو عطا کی ہے اور وہ خود بھی حجابوں میں ہے اور عورت سے بھی کہتا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کی حفاظت کے لیے دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہے تاکہ صدف کی طرح خلوت میں اپنے موتی کی حفاظت کر سکے اور وہ نسل انسانی کی بہترین تربیت کر سکے۔
در نگر ہنگامہ آفاق را
زحمت جلوت مدّہ خلاّق را
حفظ ہرنقش آفرین از خلوت است
خاتم اُو رونگین از خلوت است
اے میری چھوٹی بٹیا! یہ آرائش و زیبائش چھوڑ دے۔ مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں۔ اس مصنوعی آرائش کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنا رہا ہے۔ ہمیں ان کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے کہ عورت ہی تہذیبوں کی عمارتوں کا ستون ہے۔ وہ مایوسیوں میں اُمید کے چراغ کی طرح روشن ہوتی ہے۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جان لوتھڑے کو انسان بناتی ہے۔ اس کے کردار سے قومیں سر بلند ہوتی ہیں۔ وہ ایک روشن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کبھی نہ بجھنے والے چراغ کی مانند ہماری راہنمائی کرتی ہے۔ اس کی پکار ہمیشہ محبت کی پکار ہوتی ہے۔ اس کی صدا زندگی کا پیام بن کر صدیوں ہماری راہیں منور کرتی ہے۔ آیئے اس کی ردا اسے لوٹانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔یہ حوا کی بیٹی آپ سے عزت، محبت اور تحفظ مانگتی ہے۔ کیا آپ اپنا یہ کردار ادا کریں گے؟
آج کے اس دور میں حجاب آزادی کی توانا علامت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں باحجاب خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کا اعلان ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ ممدومعاون ہے۔ مثال کے طور پر سرجن انسانی زندگی کا سب سے نازک ترین کام کر رہا ہوتا ہے، جب وہ کسی انسان کے دل یا دماغ کا آپریشن کر رہا ہوتا ہے اور اس وقت وہ سر سے پائوں تک حجاب میں ملبوس ہوتا ہے حتیٰ کہ نقاب بھی کیا ہوتا ہے، سر بھی ڈھکا ہوتا ہے۔ دستانے(Gloves) بھی پہنے ہوتے ہیں اور گائون کی صورت میں لباس بھی پہنا ہوتا ہے اور اس کے لیے حجاب کی یہ سب تفصیلات انسانی زندگی کے اس نازک ترین کام میں رکاوٹ نہیں بنتیں بلکہ اس کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں کہ اسے مریض کے انفیکشن(Infection) اور دوسری بیماریوں سے بچائو کا سامان مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ طالبان کی قید میں اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہونے والی برطانوی صحافی ایوان ریڈلے نے ابھی ایک کانفرنس میں مجھے بتایا کہ جنیوا میں ہیومن رائٹس کنونشن میں، میں نے اٹلی اور فرانس کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے حجاب پر پابندی لگا کر بہت اچھا کیا کیونکہ آپ نے میرے وطن برطانیہ کو لاکھوں پائونڈ کا بزنس عطا کیا ہے۔ اب سب امیر عرب عورتیں شاپنگ کرنے برطانیہ آتی ہیں اور یہاں انہیں جب تک حجاب کی وجہ سے عزت ملے گی، وہ یہاں آتی رہیں گی اور جب یہاں پر بھی مغرب کا معتصبانہ رویہ پروان چڑھے گا تو وہ اپنے مسلمان ممالک میں ہی رہنے اور تفریح کرنے کو ترجیح دیں گی۔
یہ سب تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ ہمارا خالق ہے اور اسے ہی سب سے زیادہ بہتر پتا ہے کہ کس طرح سے میری یہ تخلیق زیادہ بہتر طریقے سے زندگی گزار سکے گی۔ اس وقت جبکہ سارا عالم فساد عظیم کی زد میں ہے اور بحر و بر میں انسانوں کے ہاتھوں ظلم کا راج برپا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت مظلومیت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، یہ تاریک رات اس بات کی علامت ہے کہ شب جب زیادہ تاریک ہو جائے تو سحر کی نوید بن جاتی ہے۔
دل سے کہو نہ گھبرائے کہ سحر قریب ہے