زندگی کی اذیتوں کا غلام بنائے رکھنے والا’’ نیا قانون‘‘

رپورٹنگ سے ’’کالم نگاری‘‘ میں گھس آئے مجھ جیسے بے ہنر کے لئے عرفان صدیقی صاحب زبان وبیان پر گرفت کے حوالے سے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی صاحب سے برجستگی سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور وجاہت مسعودمجھ سے کم عمر ہونے کے باوجود اکثر اپنے کالموں میں لکھے چند لفظوں کی وجہ سے مجھے لغت دیکھنے کو مجبور کردیتے ہیں۔ آج کا کالم مگر یہ بیان کرنے کو نہیں لکھ رہا کہ مجھ بے ہنر کو کونسے لکھاریوں سے مسلسل رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی کے متعارف کردہ ایک قانون پر توجہ دلانا مقصود ہے۔
پیر کی شام اپنے ٹی وی شو کے لئے مواد جمع کرنے کی خاطر ساتھیوں سمیت ایک کمرے میں بیٹھا تھا۔ میرے سامنے کی دیوار پر پانچ ٹی وی سکرینیں نصب تھیں۔ ان پر چلتے ٹکر چیختے رنگوں کے ساتھ ایک ہی خبردہرائے جارہے تھے۔ مذکورہ خبر کے مطابق سینٹ کے لئے بلوچستان سے ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہوکر’’باپ‘‘ پارٹی کے ہوئے عبدالقادر صاحب نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کے لئے ایک قانون متعارف کروانے کی کوشش کی۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کا ذکر ہوا تو میرے سمیت کمرے میں بیٹھے پانچ افراد کوشبہ ہوا کہ گزشتہ کئی دنوں سے شہباز حکومت اعلیٰ عدلیہ کو لگام ڈالنے کے ارادے سے نئے قوانین کا جو پیکیج متعارف کروانا چاہ رہی ہے سینیٹر عبدالقادر کا پیر کے روز پیش کردہ بل بھی غالباََ اس کا حصہ ہے۔
اس سے قبل گزرے منگل کے دن مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے نور عالم خان نے بھی قومی اسمبلی میں عدالتی نظام میں ’’بہتری‘‘ لانے کے بہانے چند قوانین متعارف کروانے کا عندیہ دیا تھا۔ ان کے تجویز کردہ قوانین مگر منظوری کے لئے محض سادہ اکثریت کے طالب نہیں تھے۔ ان کی منظوری آئین میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں اور آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ فی الوقت وہ شہباز حکومت کو میسر نہیں۔ حیرت ہوئی کہ ’’نجی حیثیت‘‘ میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے نور عالم خان دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کی توقع کیوں باندھے ہوئے ہیں۔
نور عالم خان پیپلز پارٹی سے ناراض ہوکر تحریک انصاف کے ہوگئے تھے۔ اس کے ٹکٹ پر 2018ء میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تو جلد ہی اس کی حکومت سے بھی مایوس ہونا شروع ہوگئے۔ بالآخر 2021ء  کے وسط میں کھل کر بغاوت کا اعلان کردیا۔ تحریک انصاف انہیں ’’منحرف‘‘ پکارتے ہوئے سماجی اعتبار سے ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کو ڈٹ گئی۔ بہرحال تحریک انصاف ان دنوں کی قومی اسمبلی میں بھی اراکین کی تعداد کے حوالے سے سب سے بڑی جماعت ہے۔ وہ نور عالم خان کے پیش کردہ قوانین کی حمایت کرنہیں سکتی۔ غالباََ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے نور عالم گزرے منگل کے دن قومی اسمبلی میں تشریف ہی نہ لائے۔ اس دن حکومت بھی کورم پورا نہ کرسکی۔ معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوا محسوس ہوا۔
پیر کے روز ایوان بالا کے اجلاس میں لیکن عبدالقادر صرف اصالتاََ موجود تھے۔انہوں نے بل پیش کیا تو وزیر قانون نے اس کی مخالفت کے اظہار کے بجائے اسے متعلقہ کمیٹی کو بھجوانے کی سفارش کردی۔ تحریک انصاف چراغ پا ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے ججوں میں اضافے کی تجویز کو ’’سازش‘‘ شمار کیا اور اسے حکومت سے منسوب اس ’’سازش‘‘ کا حصہ قرار دیا جس کے ذریعے وہ عدالتوں کی آزادی سلب کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف ہی کے سید علی ظفر اس خیال سے متفق سنائی دئے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے۔ عبدالقادر کے متعارف کردہ قانون کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ چل چکی تو بحث یہ شروع ہوگئی کہ اس کی منظوری کے لئے ’’دوتہائی اکثریت‘‘ کہاں سے آئے گی۔ تھوڑی تحقیق اور اِدھر اْدھر فون گھمانے کے بعد علم ہوا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے کے لئے آئین میں ترمیم درکار نہیں۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد آئین نہیں بلکہ 1997ء میں منظور ہوا ایک قانون طے کرتا ہے۔ اس قانون میں ترمیم کے لئے ایوان میں بیٹھے اراکین میں سے سادہ اکثریت کی ہاں درکار ہوگی اور وہ حکومت کے تعاون سے بآسانی فراہم ہوسکتی ہے۔
سینیٹر عبدالقادر کے متعارف کردہ قانون نے جو شوروغوغا بھڑکایا وہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کی روزمرہّ زندگی میں قطعاََ کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ یہ منٹو کا بیان کردہ ’’نیا قانون‘‘ ہی ہوگا جو منگو کوچوان کو زندگی کی اذیتوں کا غلام ہی بنائے رکھے گا۔ پیر ہی کے دن مگر سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے بھی ایک قانون منظور کروانے کی کوشش کی۔ مقصد اس کا اسلام آباد میں جلسے، جلوسوں اور مظاہروں کو کسی صورت قواعد وضوابط کے تحت لاکر اس شہر کی زندگی کو معمول کے مطابق لانا ہے۔ 
منگل کی صبح اٹھ کر میں نے اردواخبارات میں مجوزہ قانون کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی۔ ناکام رہا۔ یہ سوچتے ہوئے دْکھ ہوا کہ دورِ حاضر کے نوجوان صحافی قانون سازی کے عمل کو ہماری نسل کے برعکس نظرانداز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں دوش دینے کا مگر مجھ میں حوصلہ نہیں۔ قانون سازی کا ذکر سوشل میڈیا پر آپ کو زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئرز فراہم نہیں کرتا۔ سیاسی اور آئینی امور پر غور کرتے ہوئے عزت مآب ججوں کے طیش میں دئے ریمارکس کی رپورٹنگ مگر ’’بلے بلے‘‘ کرادیتی ہے۔ اخباروں سے مایوس ہوکر میں نے ایک چہیتے جونیئر مولا بخش سومرو کو فون کیا۔ ہم اسے پیار سے ایم بی پکارتے ہیں۔ میری دانست میں ان دنوں وہ واحد رپورٹر ہے جو دیوانگی کے ساتھ قانون سازی کے عمل پر کامل توجہ مبذول رکھتا ہے۔ اس کی بدولت عرفان صدیقی صاحب کے نجی حیثیت میں متعارف کردہ قانون کی تفصیلات کا علم ہوا۔ انہیں سن کر دل سے برجستہ دعا نکلی کہ عرفان صدیقی صاحب کا پیش کردہ بل نہ صرف جلد سے جلد منظور ہو بلکہ ضلعی انتظامیہ اس پر شدت سے عملدرآمد کو بھی ڈٹ جائے۔ ایسا نہ ہوا تو یقین مانیں چند ہی برسوں بعد اسلام آباد رہنے کے قابل شہر نہیں رہے گا۔ یہاں کی مہنگی جائیدادیں اور گھر خریدنے والے ماتم کنائی کرتے ہوئے اپنے گریبان پھاڑنا شروع ہوجائیں گے۔
اسلام آباد اب بقیہ پاکستان سے کٹا جزیرہ نہیں رہا۔ 1990ء کی دہائی سے اس کی آبادی میں حیران کن حد تک اضافہ ہواہے۔ اس کے پھیلائو اور آبادی کی وجہ سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں اب اسلام آباد کے لئے وقف ہیں۔ وسیع وعریض رقبے تک مسلسل پھیلتے اسلام آباد کو اوور ہیڈ پلوں، انڈرپاسز اور سگنل فری شاہراہوں کے ذریعے ’’جدید تر‘‘ بنانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی ہے۔ گزشتہ تین مہینوں سے مگر ہفتے کے تقریباََ ہر دوسرے یا تیسرے دن آپ گھر سے نکل کر منزل مقصود پر جانا چاہیں تو کم از کم ایک گھنٹے تک ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔ ’’سگنل فری شاہراہیں‘‘ اکثر کنٹینر لگاکر بند کردی جاتی ہیں کیونکہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی مسئلہ کی وجہ سے ناراض ہوئے گروہ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے پارلیمان کے روبرو واقعہ نام نہاد ڈی -چوک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ڈی چوک پہنچ کر وہاں دھرنا دے کر بیٹھ جانے کی روایت کینیڈا سے آئے ایک تماشہ گرنے متعارف کروائی تھی۔ 2014میں وہ عمران خان کے کزن ہوئے تو دھرنے کا سلسلہ 126دنوں تک پھیل گیا۔ حکومت سے کسی نہ کسی وجہ سے ناراض ہوئی ہر جماعت اور گروہ اب ڈی چوک ہی جانے کومصر رہتا ہے۔ مظاہرین کا اصرار پولیس کو وہ تمام شاہراہیں کنٹینروں سے بند کرنے کو مجبور کردیتا ہے جو سگنلوں سے پاک رکھ کر شہریوں کے لئے گھروں اور مقصود مقامات تک جلد از جلد پہنچنے کی خاطر بنائی گئی تھیں۔ اسلام آباد کی سڑکیں اب دل کی رگوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بند ہوجائے تو بقیہ سڑکوں پرٹریفک جام ہوجاتا ہے اور آپ کم از کم ایک گھنٹہ اس میں پھنسے رہتے ہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اسلام آباد کے عام شہریوں کے درد کا احساس کرتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب رہیں۔

ای پیپر دی نیشن