سیاسی جماعتوں کے مذاکرات،  امن و امان کی صورت حال اور مہنگائی کا مسئلہ!!!!!

پاکستان تحریک انصاف افواج پاکستان سے بات چیت کرنا چاہتی ہے لیکن نو مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا اس پر پی ٹی آئی ابھی تک کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر سکی کیونکہ نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کی بنیاد پر بہت سے لوگ پی ٹی آئی چھوڑ گئے اور ان کی جگہ جماعت میں آنے والے سمجھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی جو کہتے ہیں وہی حرف آخر ہے۔ صرف یہی نہیں جو سینئر لوگ پارٹی میں موجود ہیں وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نو مئی کو دفاعی اداروں کے دفاتر پر حملے، شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچانا، وطن کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے والوں کی یادگاروں پر دھاوا بولنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی جماعت کی قیادت کے خلاف قانونی کارروائی کے ردعمل میں عوامی جذبات کا اظہار تھا، عوامی ردعمل ضرور تھا لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ حکمت عملی کا حصہ تھا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور لوگوں کی ذہن سازی کر کے انہیں منزل مقصود تک پہنچایا گیا، لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا، انہیں تیار کیا گیا اور انہیں ہدف دیا گیا جہاں جا کر بپھرے ہوئے لوگوں نے توڑ پھوڑ کی، بدزبانی کی، نعرے لگائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ ملک میں بغاوت ہو گئی ہے، پرتشدد سوچ کے حامل افراد نے ملک کے لیے قیمتی جانیں قربان کرنے والوں کی قربانیوں کا مذاق بنایا۔ اس سانحے کو سولہ ماہ ہونے کو آئے ہیں آج بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی خواہش رکھنے والوں نے اس بغاوت کو تسلیم نہیں کیا اور اگر کوئی بغاوت کرے، قانون توڑے، قانون کو ہاتھ میں لے، املاک کو نقصان پہنچائے تو اس کے بعد وہ صرف اسے غلطی کہے اور معافی مانگے تو کیا اسے معاف کر دیا جائے، کیا ملک کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے گرد جب گھیرا تنگ ہو اور انہیں لگے کہ قانون اپنا راستہ بنا رہا ہے تو پھر وہ مذاکرات کا ڈھونگ رچائیں۔ جس طرح کسی بھی شہری کو زبردستی کسی مقدمے میں پھنسایا نہیں جا سکتا عین اسی طرح اگر کوئی شخص قانون توڑنے میں ملوث ہے تو اسے معاف بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک تعلق سیاسی جماعتوں کی بات چیت کا ہے وہ سلسلہ نہیں رکنا چاہیے، سیاسی جماعتوں کا یہی کام ہے کہ جہاں مشکلات ہوں، رکاوٹیں ہوں، تقسیم کا خدشہ ہو یا تقسیم ہوتی نظر آئے، جہاں اتحاد کی کمی کا خدشہ ہو یا اتحاد میں کمی آئے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ ہو، قومی و بین الاقوامی سطح کے معاملات ہوں، امن و امان کا معاملہ ہو ہر جگہ تعمیری گفتگو سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بامعنی و بامقصد مذاکرات جمہوریت کا حسن ہیں لیکن اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا کیونکہ جو حالات آج تحریک انصاف کے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی بات چیت کے حوالے سے حوصلہ افزا بیانات سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کی مخالفت بھی ہوئی ہے اور اس مخالفت کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی کا اپنا کردار ہے۔ 
 اگر آج وزیر دفاع خواجہ آصف تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو بانی پی ٹی آئی عمران خان سے بچ کر رہنے کی تنبیہ کر رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ بانی پی ٹی آئی کا اپنا رویہ ہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی محمود اچکزئی کے ذریعے بات چیت اس لیے کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ کل کو منکر ہو سکیں کہ میں نے تو بات ہی نہیں کی ، بات تو محمود اچکزئی کر رہے ہیں ۔ اس لیے محمود اچکزئی کو بانی پی ٹی آئی سے بچ کر رہنا چاہیے وہ تو مْکر جائیں گے اور آپ کی ساری عمر کی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ اگر نو مئی فالس فلیگ تھا تو بانی پی ٹی آئی اب اسٹیبلشمنٹ سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے دماغ میں تضادات کی آندھی چلی ہوئی ہے، وہ کسی ایک جگہ کھڑے ہوں تو استحکام آئے، عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنی ہے یا ان کی مخالفت ، دونوں صورتوں میں واضح فیصلہ کریں۔
آئین و قانون کی بالا دستی، لگ بھگ پچیس کروڑ انسانوں کے بنیادی مسائل حل کرنے، ملک میں سیاسی استحکام، معاشی استحکام کے لیے سیاسی جماعتوں کو ہر وقت رابطے میں رہنا چاہیے ، ملکی خزانے کو نقصان پہنچا کر ایک دوسرے کو بچانے یا آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد مذاکرات کے پیچھے چھپنے کے بجائے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ اگر قوم کے ساتھ غلط بیانی کی گئی ہے لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا ہے تو اس معاملے میں بھی سب سے پہلے غلطی تسلیم کرنی چاہیے اور پھر قانونی راستے پر چلنا ہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ ویسے بھی ملک میں امن و امان کے بگڑتے حالات سیاست دانوں سے سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں ۔
وزارت داخلہ نے قومی اسمبلی امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا اعتراف کیا ہے ۔ وزارت داخلہ کے مطابق سال 2024 کی پہلی سہ ماہی میں خفیہ معلومات پر دو ہزار دو سو آٹھ آپریشن کیے گئے جن میں 89 دہشتگرد ہلاک اور تین سو اٹھائیس کو گرفتار کیا گیا۔ دو ہزار بیس سے دو ہزار چوبیس کے دوران سندھ میں چینی اور جاپانی باشندوں پر چار دہشتگرد حملے ہوئے جن میں پانچ غیر ملکی ہلاک ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں چینی باشندوں پر ہونے والے دو حملوں میں تین افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں بھی چینی باشندوں پر دو حملے ہوئے جس میں دو سیکیورٹی اہل کار شہید اور سترہ چینی باشندے جان کی بازی ہار گئے جب کہ انیس مقامی لوگ شہید ہوئے۔ چینی باشندوں پر ہونے والے حملے ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں کیونکہ سی پیک پر ہونے والا کام کئی عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ سی پیک سے ملک میں معاشی استحکام کی امید ہے، یہی وجہ ہے کہ اس گیم چینجر منصوبے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے دسمبر 2023 کے دوران ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں 930 افراد جاں بحق اور 1992 زخمی ہوئے، خیبرپختونخوا میں گزشتہ برس دہشتگردی کے558 واقعات ہوئے جن میں580 افراد شہید اور 1447 زخمی ہوئے، ان میں شہید ہونے والے 402 جب کہ زخمیوں میں 1054 اہلکار تھے۔ ادھر بلوچستان میں گزشتہ سال دہشتگردی کے 626 واقعات میں315 افراد شہید اور 477 زخمی ہوئے، ان میں شہید ہونے والے 148 جب کہ زخمیوں میں 198 اہلکار شامل تھے۔ سندھ میں گزشتہ برس دہشتگردی کے 19 واقعات میں14 افراد شہید اور 31 زخمی ہوئے، ان میں شہید ہونے والے 8 اور زخمیوں میں 26 اہلکار تھے،  پنجاب میں2023 میں دہشتگردی کے 8 واقعات میں 12 افراد شہید اور 11 زخمی ہوئے، شہدا میں 11 جب کہ زخمیوں میں 9 اہلکار تھے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں گزشتہ برس دہشتگردی کے 3 واقعات میں 9 افراد شہید اور 26 زخمی ہوئے جب کہ اس دوران اسلام آباد میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ امن و امان کی اس صورت کے پیش نظر سیاسی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ غیر ضروری مظاہرے، احتجاج بند کیے جائیں۔ پارلیمنٹ سمیت ہر جگہ متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد اور یکسوئی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے تاکہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے والوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون!
کس سے مکالمہ ہے ! پسِ گفتگو ہے کون!
سایہ اگر ہے وہ تو ہے اْس کا بدن کہاں؟
مرکز اگر ہوں میں تو مرے چار سو ہے کون!
ہر شے کی ماہیت پہ جو کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون!
ہونا تو چاہیے کہ یہ میرا ہی عکس  ہو!
لیکن یہ آئینے میں مرے روبرو ہے کون!
سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشوں کا ہے
دل سے بڑا جہان میں امجد عدْو ہے کون

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...