اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں تجارتی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے موسمیاتی تبدیلی کے سبب ملک تباہ ہو رہا ہے اور یہاں پیسے کمائے جارہے ہیں، اگر نیشنل پارک ایریا میں ریسٹورنٹس بنائے جانے لگے تو لینڈ سلائیڈنگ سے اسلام آباد متاثر ہوگا، جھونپڑی فوری گرا دی جاتی ہے، نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمی نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چھوٹا سا کھوکھا بنانے کی اجازت ملی لیکن بڑے بڑے محل بنا دیئے گئے، ہوٹل مالکان کی طرف سے وکیل نعیم بخاری پیش ہوئے اور تعمیرات گرانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے پر تمام فریقین نے رضامندی ظاہر نہیں کی۔ جس پر چیف جسٹس نے وکیل نعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا خوبصورت مارگلہ ہلز میرے یا آپ کے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی ملکیت ہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ڈاکٹر امجد جو 66 فیصد شیئر ہولڈر ہیں وہ ملک میں تھے ہی نہیں، عدم موجودگی میں ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں کہ ریسٹورنٹ غیر قانونی ہے، باقاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریسٹورنٹ کے لائسنس کی تجدید ہوئی اس کی دستاویز دکھا دیں۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جب لائسنس نہیں تھا تو میٹرو پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد نے 2018 ء میں لائسنس کی فیس چار سو فیصد کیسے بڑھا دی؟۔ چیف جسٹس نے کہا تعلقات کے سبب ایسا ہوا ہوگا۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے نے اس معاملے پر انکوائری بھی شروع کی جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں علم ہے چیزیں کیسے مینج ہوتی ہیں، ایف آئی اے چار سو فیصد فیس بڑھانے کی رائے کیسے دے سکتا ہے، اگر کوئی جھونپڑی بنا لے تو فوراً گرا دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو سی ڈی اے نے تو سب کچھ تھالی میں رکھ کر دے دیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ اس ملک میں ایسا بہت کچھ ہوتا رہا جو غیر عمومی تھا۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا یہی تو ہمارا المیہ رہا۔ چیف جسٹس نے کہا اس ملک میں تو کبھی کبھی لوگ اپنے فائدے کیلئے اپنے اوپر خود ساختہ کیسز بھی بنوا لیتے ہیں۔ اس موقع پر نعیم بخاری نے آئین غصب کرنے کے اقدمات کو جائز قرار دینے کے ایک عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس عدالت نے نظریہ ضرورت کی بنیاد پر لاقانونیت کو جواز دیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم پر انگلیاں اٹھانا بند کریں، جس پر نعیم بخاری نے کہا سپریم کورٹ نے خود بھٹو ریفرنس میں تسلیم کیا کہ انہیں شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا تھا۔ جسٹس جمال خان مند وخیل نے کہا ہم نے تسلیم کیا آپ بھی تو تسلیم کریں۔ شائن ہائیٹس کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 1996 میں ہمیں 53 سال کیلئے زمین لیز پر دی گئی تھی، سی ڈی اے نے لیز منسوخ کی تو ہائیکورٹ بنچ راولپنڈی نے لیز کو دوبارہ بحال کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ بنچ راولپنڈی میں فیصلہ دینے والے جج کا نام کیا تھا۔ وکیل نے بتایا کہ فیصلہ جسٹس نواز عباسی نے دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ وہی جج ہیں جنہوں نے ایک فیصلے میں کہا تھا ججز کو پلاٹس ملنے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہا پہلے بھی بہت بدنامی ہوچکی ہے اب ان معاملات سے عدالتوں کو دور رکھیں، ہم نے نیشنل پارک کو تحفظ دینے کیلئے یہ فیصلہ دیا ہے۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔