اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے ملک کی معیشت درست سمت پر گامزن ہے، معاشی استحکام ملک کی ترقی کیلئے ناگزیرہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تنقید کرنے والے بتائیں، انہوں نے ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے کتنا حصہ ڈالا؟۔ ہول سیلرز، ڈیلرز اور کاروباری حضرات کو بھی ٹیکس ادا کرنے میں حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ آئی ایم ایف کو ٹارگٹڈ سبسڈی پر اعتراض نہیں۔ حکومت کی ٹیکس نیٹ بڑھانے کی پالیسی واپس نہیںہو گی اور ہم رائٹ سائزنگ سے وفاقی حکومت کے حجم کو کم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ حکومت سول سرونٹ ایکٹ میں قانون سازی میں ترمیم بھی لائے گی۔ ٹیلی ویژن پیغام اور گفتگو میں، وزیر خزانہ نے خوردہ فروشوں، تقسیم کاروں اور تھوک فروشوں سے ٹیکس ادا کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ تاجروں پر ٹیکس واپس نہیں لیں گے۔ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اور نفاذ رواں مہینے میں شروع ہو جائے گا۔ حکومت وزارتوں کو ضم کرنے یا ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ نہیں لے رہی ہے اور تمام متعلقہ فریقوں کو سن رہی ہے۔ اقتصادی اشاریے درست سمت میں جا رہے ہیں۔ دو بین الاقوامی ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان کی رینکنگ میں اضافہ اس کا اعتراف ہے۔ تقریباً چھ ماہ قبل شروع کیے گئے سفر کے مثبت نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب ڈالر سے زائد ہیں جو کہ دو ماہ سے زائد کی درآمدات ہیں۔ سوسائٹی کے ہر شعبے کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کو ٹارگٹڈ سبسڈی پر اعتراض نہیں۔ بی آئی ایس پی کے ذریعے مستحق طبقے کو سبسڈی دی جا سکتی ہے، رواں ہفتے وزرائے اعلیٰ سے بات چیت ہو گی، ملک بھر میں یکساں پالیسی نافذ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی سیکرٹری خزانہ بھی صوبائی سیکرٹری سے بات چیت کریں گے، اسی مہینے صوبوں سے مل کر قومی مالیاتی معاہدہ تیار کیا جائے گا، بیرونی فنانسگ پورا کرنے کیلئے ایڈوانس سطح پر بات چیت جاری ہے۔ محمد اورنگزیب نے مزید کہا ہے کہ قرض رول اوور کے لئے بات چیت حتمی مرحلے میں ہے اور مثبت انداز میں چل رہی ہے، دوست ممالک کے متعلقہ ادارے جلد اپنی حکومتوں کو اس بارے میں آگاہ کریں گے، بیرونی فنانسگ کا 2 ارب کا گیپ ہے، اسے پورا کرنے کے لیے ایڈوانس سطح پر بات چیت جاری ہے۔ اس وقت ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، تاجروں پر عائد ٹیکس واپس لینے کا مطلب ہے کہ ٹیکس تنخواہ دار، مینوفیکچرنگ سیکٹر سے لیا جائے۔ تاجروں کو ہر سہولت دیں گے، ان کے جائز مطالبات مانیں گے لیکن سوسائٹی کے ہر شعبے کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا، اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ مہنگائی اب سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے۔ پالیسی ریٹ بھی نیچے آرہا ہے جس سے تمام شعبوں کو فائدہ ہوگا۔ جولائی کے مہینے میں ترسیلات زر اب تک کی بلند ترین سطح پر رہیں۔ وزیر خزانہ نے اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہ آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کے قرضہ پروگرام کی بروقت منظوری دے گا، اسے کامیاب اور آخری پروگرام بنایا جائے گا، یہاں 43 فیصد شعبے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں، تنخواہ دار طبقہ جی ڈی پی میں اپنا حصے سے زیادہ ادا کر رہا ہے، یہ ملک کب تک ایسے چلتا رہے گا؟۔ سب سے گزارش ہے کہ ملک کا بوجھ سنبھالیں، ملک خیرات پر نہیں چلتے، اس کی ترقی کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ افراط زر 38 فیصد سے کم ہو کر 9.6 فیصد پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال اگست میں یہ 23.7 فیصد پر تھا، شرح سود میں کمی سے سب طبقوں کو فائدہ ہوگا۔ مائیکرو اکنامک استحکام بہت ضروری ہے۔ ماضی میں جب بھی ہم گروتھ کی طرف جاتے ہیں اور چار فیصد سے اگے بڑھتے ہیں تو ادائیگی کے توازن کے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں، ہمیں اس کا تدارک کرنا ہے۔ ملک کو محصولات کو بڑھانا ہوگا، ایف بی آر کے ریونیو میں 98 ارب روپے کا شارٹ فال آیا، 132 ارب کے ریفنڈ دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے کوئی چیز نہیں روکی۔ تاجر طبقہ جو بھی مشورہ دے گا سنجیدگی سے اس پر غور کریں گے۔ فیڈرل حکومت کے سائز کو کم کیا جائے گا۔ 6 وزارتوں کے معاملے پر غور ہو چکا ہے۔ دو وزارتوں کو ختم کر رہے ہیں، اس سے گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے افسروں کی تعداد میں کمی آئے گی۔ اس طرح وزارتوں کے تحت خود مختار اداروں کے بارے میں بھی کام ہو رہا ہے۔ اعلانات کے ساتھ ساتھ عمل درآمد کا پلان بھی تیار ہو رہا ہے، اگلے مرحلے میں پانچ مزید وزارتیں ہیں، غور کے لیے کمیٹی کے پاس آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کی گئی ہے کہ بڑے افسروں کو چھوڑ دیا گیا، ایسا نہیں ہے۔ ہمیں قانون سازی کی ضرورت ہوگی یا متعلقہ قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی اور اسے اسمبلی سے منظور کرانا پڑے گا اور یہ کام اتحادیوں کے صلاح مشورے سے ہوگا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اس ماہ منظور ہو جائے گا۔