بلوچستان ہاتھ سے نکل چکا، ملک میں صرف نام کی حکومت، اختر مینگل قومی اسمبلی سے مستعفی

اسلام آباد (وقائع نگار+نوائے وقت رپورٹ) بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔ اس بات کا اعلان انہوںنے پارلیمنٹ میں محمود خان اچکزئی کے ساتھ صحافیوں سے بات چیت میں کیا۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔ پارلیمنٹیرین نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے، بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے، اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی۔ جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کرو تو بلیک آوٹ کر دیا جاتا ہے، میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاؤنٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں۔ ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نہ کوئی بات سنتا ہے۔ استعفیٰ کی بات میں نے کسی کو نہیں بتائی لیکن اس پریس کانفرنس میں بتا رہا ہوں۔ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا‘ بلوچستان کے حالات دیکھ کر فیصلہ کرکے آیا تھا۔ میں ریاست، صدر اور وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، پورے نظام پر عدم اعتماد کر رہا ہوں۔ بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں، میں اپنے لوگوں کیلئے کچھ نہیں کر سکا، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں، 65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے، ان سے معافی مانگتا ہوں۔ علاوہ ازیں  بی این پی کے سربراہ نے اپنا استعفیٰ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرایا جہاں سیکرٹری قومی اسمبلی نے اسے وصول کیا۔ یاد رہے کہ  اختر مینگل این اے 256 خضدار سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ دوسری جانب  سردار اختر مینگل کے استعفیٰ کے معاملے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ مرکزی قیادت کا اجلاس کوئٹہ میں بلایا جائے گا‘ اجلاس میں سردار اختر مینگال کے استعفیٰ کے بعد کی سیاست کا جائزہ لیا جائے گا اور سینٹ و صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے متعلق حتمی فیصلہ بھی متوقع ہے۔اختر مینگل نے کہا کہ ہمارے ساتھ کوئی ہے، نہ کوئی ہماری بات سنتا ہے، یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اختر مینگل کا استعفیٰ واپس لینے کیلئے ان کے خدشات دور کرنا چاہئیں۔ اختر مینگل سے بات چیت ہو سکتی ہے، کرنی چاہئے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کے ذریعے کہلوایا جائے کہ ہم بلوچستان کے مسائل حل کریں گے۔ بلوچستان کی بہتری کیلئے کئی مواقع ضائع کئے گئے۔ بلوچستان کی محرومیوں کی وجہ سے وہاں ملک دشمن عناصر کو تقویت ملی۔ ان تمام وجوہات کو ختم کرنا چاہتے جن کی وجہ سے بلوچستان میں مسائل ہو رہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر لیڈر ماضی میں قومی ڈائیلاگ کا کہہ چکے ہیں۔   پی ٹی آئی میں چار گروپ بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی والے سیاسی جماعتوں سے بات کرنا نہیں چاہتے۔ پی ٹی آئی والے بار بار اسٹیبلشمنٹ کو آوازیں لگاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاسی جماعتوں کی وقعت نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسٹیبلشمنٹ ان مذاکرات میں شامل ہونا چاہتی ہو۔ محمود اچکزئی سیاسی جماعتوں سے بات کرتے ہیں تو ہم خیر مقدم کریں گے۔ اگر محمود اچکزئی کے ساتھ کچھ باتوں پر اتفاق ہوتا ہے تو کیا باقی پی ٹی آئی اسے مانیں گے۔ معاملات اب زیادہ عرصہ معلق نہیں  رہیں گے۔ سب چند دنوں میں طے ہو جائے گا۔ بانی پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ قدموں کے نشان ان کی طرف نہ آ جائیں۔ بانی پی ٹی آئی جو کچھ کرتے رہے جنرل فیض اس سے باخبر آدمی ہیں۔ خواجہ  سعد رفیق نے بیان میں کہا ہے کہ سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاق کیلئے برا شگون ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ، لشکری رئیسانی، سردار اختر مینگل، مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا ہدایت الرحمن جیسوں کا دم غنیمت سمجھنا چاہئے۔ بلاشبہ بلوچستان کا مسئلہ محض طاقت، مذاکرات یا پسندیدہ سیاسی کھلاڑیوں سے حل نہیں ہوگا۔ سی پیک کے خلاف بیرونی قوتیں سرگرم ہیں۔ تشدد کی نئی لہر اسی کا شاخسانہ ہے۔ اس کے توڑ کیلئے قابل عمل سیاسی و عسکری حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔ پاکستان توڑنے اور الگ ہونے کا خواب انشاء اللہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔ مگر یہ مکروہ کھیل بہت کچھ ہڑپ کر جائے گا۔ سردار اختر مینگل کا استعفیٰ مؤخر کرکے بات کی جائے۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختر مینگل کا استعفیٰ افسوسناک خبر ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اکٹھا رکھے۔ پہلی بار 4 سال میں مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر آئی ہے۔ ہڑتالیں اور ہنگامے ہوں گے تو مسائل بڑھیں گے۔ جمہوریت میں احتجاج ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست تشدد پر مبنی ہے۔ تحریک انصاف پرامن جلسے کرے تو کوئی نہیں روک سکتا۔ نو مئی کرنے والوں کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت کیسے دیں۔ تحریک انصاف جلسے کے بجائے ایوان میں آئے۔ مشیر وزیراعظم سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ اختر مینگل  بلوچستان کے سینئر اور اہم رہنما ہیں۔ کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی اختر مینگل کو بروقت اطلاع نہیں ہو سکی۔ حکومت اختر مینگل سے ضرور رابطہ کرے گی۔ کوشش ہو گی کہ اختر مینگل کی ناراضی دور کی جائے اور وہ رکن اسمبلی رہیں۔ وہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ اختر مینگل اس سے ملتی جلتی بات کافی عرصے سے کر رہے ہیں۔ تحفظات کے باوجود اختر مینگل نظام کے ساتھ چلتے رہے ہیں۔  جن خرابیوں کی اختر مینگل نشاندہی کرتے ہیں ان میں بھی بہتری ہونی چاہئے۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن سے ہماری قیادت کے اچھے تعلقات ہیں۔ محمود اچکزئی سے ہم بغیر کسی مذاکرات کے بھی ملتے رہے ہیں اور ملتے رہیں گے۔  بانی پی ٹی آئی کی طرف سے نو مئی اور اسٹیبلشمنٹ پر مؤقف واضح نہیں ہے۔ نواز شریف نے جلسے میں کہا سب سر جوڑ کر بیٹھیں گے تو ملک مسائل سے نکلے گا۔ پی ٹی آئی ایک طرف کہتی ہے کہ محمود اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا ہے۔ دوسری طرف کہتے ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گے تو معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ نواز شریف نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی کو نکال کر باقی پارٹیاں بیٹھیں۔  ڈی جی آئی ایس پی آر کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات سیاستدان کریں۔ مذاکرات میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ بانی پی ٹی آئی ہیں۔ شہباز شریف نے بات چیت کی پیشکش کی ، یہ نہیں کہا کہ پہلے معافی مانگیں، وزیراعظم اسمبلی فلور پر اپوزیشن کے پاس گئے، ان سے کہا آئیں بات کریں۔

ای پیپر دی نیشن