پیر سید فاروق حیدر شاہ ہمدانی
7ستمبر 1974ء کو ملک میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔قائد اہلسنت مولانا شاہ احمد نورانی نے نہ صرف اسمبلی کے اندر مرزائیوں کو اقلیت قرار دلوانے کے لیے دن رات محنت کی بلکہ اس فتنے کی ہلاکت آفرینی سے ملت اسلامیہ کو پوری طرح آگاہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کردیں ، قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے فورم پر دیگر ارکان ِا سمبلی کے ساتھ مل کر آپ نے تاریخی قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے کر کامیاب ہوئے۔
آپ نے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے بھی تقریباً ڈیڑھ سو شہروں ، قصبوں اور کانفرنسوں میں عام جلسوں سے خطاب کیا۔یہ سلسلہ تب سے آج تک جاری ہے۔اس تاریخ ساز فیصلے کو 50 سال ہو گئے،آج بھی ملک کی دینی جماعتیں ہرسال اس دن کی کامیابی کو عجز و انکسار اور جذبہ ء تشکر کے ساتھ مناتے ہیں۔ دینی قیادت کی جانب سے ہر سال اس دن کی نسبت سے کانفرنسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جس میں اکابرین کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے پر خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔یوم تحفظ ختم نبوت کے موقع پراس بارگولڈن جوبلی ختم نبوت کا نفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں اس دن کی نسبت سے اجتماعات منعقد ہوں گے۔کراچی میںاس تاریخ ساز دن پر مرکزی جماعت اہل سنت کے زیر اہتمام کانفرنس ہوگی جس کی سر پرستی مفتی اعظم سندھ علامہ مفتی محمد جان نعیمی کریں گے ۔کانفرنس میں ملک بھر سے شرکت کیلئے علمائے کرام ، مشائخ عظام ،مذہبی سماجی وسیاسی شخصیات اور عوام قافلوں کی صورت میں جلسہ گاہ پہنچیں گے ۔ انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام بھی7ستمبربروزہفتہ چناب نگرمیں جلسہ ہو گا۔ 37ویں سالانہ انٹر نیشنل ختم نبوت کا نفرنس کی صدارت تنظیم کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر سعید عنائت اللہ (مکہ مکرمہ) اور سیکرٹری جنرل مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج (مدینہ منورہ ) کریں گے۔
اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے وہ یہ ہے کہ نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ؐ پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی اور آپ ؐ کے بعد کسی پر وحی آ سکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ’’ ختم نبوت ‘‘ ہے اور حضور نبی کریم ؐ کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن مجید کی بے شمار آیات نبی آخر الزمان ؐ کی سینکڑوں احادیث مبارکہ اس عقیدے کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّمہ اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مْفصل کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔
ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آپ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے ’’ خاتم النبیین ‘‘ ہیں۔ آپ ؐ کی اْمت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔ ہمارا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ؐہیں اور آپ ؐ کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں آئے گا ، اس پر قرآن و حدیث میں پوری صراحت موجود ہے ، اسی لیے سرکاردوعالم ؐ کے ظاہری وصال کے بعد جب جھوٹے مدعیان نبوت اٹھے تو ان کے خلاف بھرپور جہاد کیا گیا۔
ہر دور میں جھوٹے نبی پیدا ہوتے رہے اور ہوتے رہے گے۔ حضور نبی کریم ؐکا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ میرے بعد تیس دجال و کذاب جھوٹے نبی ہوں گے ‘‘۔ برصغیر پاک و ہند میں جب انگریزوں نے اپنا تسلط قائم کیا تو مسلمانوں کو ہر لحاظ سے کمزور کرنے کے ہتھکنڈے آزمائے اور جھوٹی نبوت کے دعوے سے مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں ان کی نظر انتخاب گورداس پور کے باسی مرزا غلام احمد قادیانی پر پڑی۔ اپنے اس پروگرام کے مطابق حکومت برطانیہ کے گماشتوں نے مرزا کو بطور مبلغ و مناظر متعارف کروایا اور اس کے عیسائی پادریوں کے ساتھ کئی مناظرے کرائے اور بہت زیادہ مال خرچ کر کے اس کا لٹریچر بھی شائع کیا اور اس کی تشہیر کے لیے اپنے ذرائع بھی مہیا کئے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بظاہر اسلام کی تبلیغ اور غیر مسلموں کے ساتھ مناظرے کرنے کی وجہ سے شہرت حاصل ہونے پر اپنا رخ بدل کر مسیح موعود اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
جب علمائے اسلام نے مرزا کے اس دعوے کی تردید کی تو مرزا نے چیلنج کر دیا اور اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ ’’ اس وقت آسمان کے نیچے کسی کی مجال نہیں کہ میری برابری کا دم مارے ، میںاعلانیہ اور کسی خوف کے بغیر کہتا ہوں کہ جو لوگ چشتی ، قادری ، نقشبندی اور سہروردی اور کیا کیا کہلاتے ہیں انہیں میرے سامنے لائو‘‘۔ جب مرزا کے فتنہ سے فساد کا خطرہ پیدا ہو گیا تو 1899ء میںمہر علم و عرفان حضرت پیر سید مہر علی شاہ قدس سرہ نے ’’ شمس الہدای ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف فرمائی جس میں قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سے لیے گئے قطعی دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے اوراب وہ قرب قیامت میں زمین پر اتریں گے۔ آپ نے اپنی کتاب شمس الہدایۃ میں امتحان کے طور پر مرزا قادیان سے مطالبہ فرمایا کہ وہ کلمہ طیبہ کا معنی بتا دے۔ اس کتاب کی ایک کاپی مرزا قادیانی کو بھی اس کے پتے پر بھیج دی گئی۔
20 جولائی 1900ء کو مرزا قادیانی نے ایک اشتہار کے ذریعے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کو عربی میں قرآن کی تفسیر لکھنے کا مقابلہ کے لیے چیلنج کیا اور اس مقابلے کی تمام شرائط خود ہی طے کر دیں۔ جب یہ اشتہار گولڑہ شریف پہنچا تو اسی دن ہی چھپنے والے اخبار ’’ چودھویں صدی ‘‘ سے اپنا جوابی اشتہار شائع کروایا کہ مرزا کی تمام شرائط کے ساتھ چیلنج قبول ہے اور ان کے لیے 25اگست کی تاریخ مقرر کی۔ جب آپ راولپنڈی سے روانہ ہوئے تو بذریعہ تار قادیان میں مرزا کو اطلاع دی کہ میں روانہ ہو چکا ہوں۔ لاہور اسٹیشن پر جب آپ اترے تو پچاس سے زیادہ جید اور مستند علمائے کرام ، لاہور میں سینکڑوں کی تعداد میں علماء دین کی جماعت اور ہزاروں اہل ایمان موجود تھے ، اس موقع پر مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر نے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کو اپنا قائد تسلیم کیا۔ لیکن مرزا کوہمت نہ ہوئی اور وہ اپنے قتل کی منصوبہ بندی کا بہانہ کر کے میدان سے بھاگ نکلا۔کچھ دن گزرے تو قادیانی جماعت کے ایک وفد نے تاجدارِ گولڑہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں یہ کہہ کر مرزا قادیانی سے مباہلے کی دعوت دی کہ ایک اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا اور دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں آپ دعا کریں جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا ٹھیک ہو جائیں وہ سچا ہو گا۔ قادیانی وفد کی بات سنتے ہی تاجدارِ گولڑہ نے فرمایا ’’ اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آ جائو ‘‘ اس کے بعد قادیانی وہاں سے دم دبا کر بھاگے۔ اس پر پیر مہر علی شاہ نے فرمایا ’’ یہ دعویٰ میں نے از خود نہیں کیا تھا بلکہ عالم مکاشفہ میں حضور اکرم ؐکے جمال باکمال سے میرا دل اس قدر قوی اور مضبوط ہوگیا تھا کہ مجھے کامل یقین تھا کہ اگر میں اس سے بھی کوئی بڑا دعویٰ کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک جھوٹے مدعی نبوت کے خلاف ضرور مجھے سچا ثابت کرتے، مجھے یقین کامل ہے کہ جو شخص تحفظ ختم نبوت کا کام کرتا ہے اس کی پشت پر حضور اکرم نبی مکرم ؐ کا ہاتھ ہوتا ہے ‘‘۔
مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ نبوت کے بعد امت مسلمہ نے جس طرح اس کی گرفت کی اور علماء نے جس طرح اس کا تعاقب کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا جو اس نے مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے لگایا ،مسلمانان برصغیر پاک وہند نے ہر محاذ پر اس کو شکست دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی دیگر علماء کرام بھی پابند سلاسل رہے۔
1974ء میں پیش آنے والے پر تشدد واقعات توملک میں ہنگاموں کا باعث بن گئے جس کے بعدعلماء کرام اور عوام نے مل کر ایسا کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ خاتم النبیین ، رحمۃ للعالمین ؐکی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر ایک ہی نعرہ لگایا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ 1974ء کی تحریک ختم نبوت میں شیخ الاسلام خواجہ محمد قمرالدین سیالوی ،مولانا شاہ احمد نورانی ، مفتی محمود ، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری ، ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری ، پروفیسر غفور احمد جیسے اکابر علماء کرام صف اول میں شامل تھے۔ عوام نے اپنا جان و مال اور وقت سب کچھ قربان کیا ، اسی طرح ملک کے سیاست دانوں نے بھی اس میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا وقت تھا، شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف قرارداد پیش کی۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے قرارداد کا مسودہ تیار کر کے قومی اسمبلی کے 28 معزز اراکین کے دستخطوں سمیت قادیانی ذریت کے خلاف پرائیوٹ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ قرارداد کا مسودہ صاحبزادہ فاروق علی خان کو پیش کرنے کے دوران سپیکرچیمبر میں اس وقت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر قانون حفیظ پیرزادہ بھی وہاں موجود تھے ۔ان کا مؤقف تھاخواہ مخواہ ایک مسئلہ اور مصیبت کھڑی کر دی گئی ہے ، آپ قومی اسمبلی کو قومی اسمبلی ہی رہنے دیں ، کیا اب اسمبلی میں مجلس مناظرہ ہوگی۔ قادیانیوں کے مسئلہ پر قومی اسمبلی میں بحث کا آغاز ہو کر رہنا تھا ماہرین اور علماء کی مختلف ٹیمیں اس کیس کی تیاری میں مصروف تھیں۔ چند دنوں میں محضرنامہ تیار ہوگیا۔ لاہوری گروپ کے صدر الدین ، عبدالمنان عمر اور مسعود بیگ نے اپنا مئوقف پیش کیا اور ربوہ پارٹی کی طرف سے مرزا ناصر اور اس کے معاونین نے اپنا مئوقف پیش کیا۔4,5,6 ستمبر کو اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹ کر اراکین اسمبلی کے سامنے دو روزہ اپنا مفصل بیان پیش کیا ،اس اسمبلی نے تاریخی بحث میں قادیانیوں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کیا گیا اور نہایت اطمینان سے ان کے دلائل سننے کے بعد اقلیت قرار دیا گیا۔بلاشبہ یہ بہت اہم مرحلہ تھا جب پارلیمنٹ میں پاس کردہ بل پر دستخط کرتے وقت ملک کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں۔جبکہ اس کے رد عمل میں مایوس ہونے کے بعد قادیانیوں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششیں شروع کر دیں،حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس منعقدہ جنیوامیں حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری جو اس وقت سپریم کورٹ کے جج بھی تھے ، انہوںنے قادیانیوں کے جھوٹ کا پول کھولا اور ان کے مئوقف کو جھوٹا ثابت کیا ۔