کہتے ہیں اب سلطانی جمہور کی منزل حاصل کر لی ہے۔ کہتے ہیں کہ بس دن گِنا کرتے تھے اس دن کے لئے ۔کہتے ہیں کہ اب جرنیلی آمریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا جانے والا ہے اور کہتے ہیں کہ جرنیلی آمروں کے ڈسے ہوئے سیاستدانوں نے اپنے ماضی اور ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اب اپنے ایکے کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے 18 ویں آئینی ترمیم کو بطور ایلفی استعمال کیا جائے گا جس کی منظوری کے بعد سلطانی جمہور کو نقب لگانے کی کوئی درز کھل نہیں پائے گی۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن اور بھی فرینڈلی ہو گئی ہے اور دعویٰ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو پائے گی۔
بس یہی ایک موضوع اس وقت ”ٹاک آف دی ٹاون“ ہے گزشتہ روز ایک وکیل دوست کے بیٹے کے ولیمہ میں شریک ہوا تو وہاں موجودہ اور سابق جج حضرات اور نمائندہ وکلاء18 ویں آئینی ترمیم کے بخئے ادھیڑتے اور ساتھ ہی ساتھ چاک رفو کرنے کے ”شغل کارآمد“ میں مصروف نظر آئے۔ عدلیہ کی آزادی سے لے کر ممکنہ ماورائے آئین اقتدار تک تمام کٹھنائیوں کو عبور کرنے‘ گتھیاں سلجھانے‘ ٹانکے لگانے اور ساتھ ہی ساتھ بے پر کی چھوڑنے کے لئے بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے ممکنات و ناممکنات کا بے دردی اور پھر دردمندی کے ساتھ جائزہ لیا جا رہا تھا۔ 18 ویں آئینی ترمیم اور این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدآمد کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کارروائی کے محاسن و مضمرات پر بیک وقت بحث ہو رہی تھی۔ ایک نئے نئے ”نڈر“ وکیل راہی صاحب بھی سپریم کورٹ بلڈنگ میں اپنا داخلہ بند ہونے کے ثبوت جیبوں میں ٹھونسے اور بغل میں دابے شادی کی اس محفل میں گھومتے پھر رہے تھے۔ اپنی بے باکیوں کے کارنامے سنائے چلے جا رہے تھے اور پھر داد سمیٹنے کے لئے ہر نشست کے ساتھ معانقہ‘ مصافحہ کی نوبت لا رہے تھے۔ اٹارنی جنرل انور منصور کا استعفیٰ بھی زیر بحث آ گیا اور سیکرٹری قانون کی سپریم کورٹ کے روبرو ”بے باکی“ پر بھی داد تحسین کے ڈونگرے برسانے کے اہتمام ہوتا رہا۔ 18 ویں آئینی ترمیم پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے موقف کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے اتفاق رائے کے معاملہ کا بھی حیرت‘ بے یقینی اور کسی ممکنہ مثبت نتیجے کے تناظر میں جائزہ لیا جا رہا تھا اور نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ یہی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت اور علامت ہے۔ اب کسی طالع آزما جرنیل کو سیاستدانوں کے اس ایکے کے سامنے سر اٹھانے اور جمہوریت کو کھلونا بنانے کی جرات نہیں ہو گی۔ وکلاءکا ایک گروپ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے موجودہ جوڈیشل ایکٹوازم پر اپنے خوفناک تحفظات کا اظہارکر رہا تھا تو دوسرے گروپ کو اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججوں کے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تقرر کی تجاویز کی بنیاد پر 18 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں مشکل ہی سے منظوری کے مراحل طے کرتی نظر آ رہی تھی۔ مسلم لیگ (ق) پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔ ”اب 18 ویں آئینی ترمیم کے لئے تو بہر صورت مسلم لیگ (ق) کی حقیقت کو انہیں تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ کیا مسلم لیگ (ق) کو خود اس حقیقت کا ادراک نہیں؟ یقیناً ہے تو وہ اتنی آسانی سے 18 ویں آئینی ترمیم کے حق میں تھوڑا ووٹ دے دے گی۔ اپنی شرائط کیوں نہیں منوائے گی۔ پھر 18 ویں ترمیم کے لئے آپ سیاستدانوں کے ایکے کو کہاں لے کر جائیں گے۔؟“
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
غرض جتنی سوچیں تھیں‘ اتنی بولیاں تھیں‘ یاروں نے 18 ویں ترمیم کے صدقے سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ بھی کر دی اور اسے مضبوط و مستحکم بھی بنا دیا۔ اتفاق نظر آیا تو صرف اس بات پر کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کراتے ہوئے حکومت صدر مملکت کے خلاف سوئس کورٹ میں مقدمات ری اوپن کرانے کے لئے رجوع کرے گی تو اس حکومت اور صدر کے برقرار رہنے کا بھلا کیا جواز بچے گا۔ وزیر اعظم تو 18 ویں آئینی ترمیم کا زیور پہن کر سجنے‘ سنورنے اور مستحکم ہونے کا اہتمام کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ صدر کے خلاف کیس ری اوپن کرانے کی ہدایات دے کر اسی حکومت کی بنیادیں ہلانے کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ کیا یہ اداروں کے ٹکرا¶ کی کیفیت نہیں ہے اور اس صورت میں بھلا 18 ویں ترمیم سسٹم کو تہہ و بالا ہونے سے بچانے کے لئے کیا کردار ادا کر پائے گی۔ کیا پہلے کوئی قانون یا کسی قانون کا خاتمہ طالع آزما¶ں کا راستہ روک پایا ہے۔ دفعہ 58(2)B میاں نواز شریف نے بھی تو پارلیمنٹ کے ذریعہ یک قلم چاک کرائی تھی۔ پھر اس اختیار سے صدر کو بے اختیار کرانے کے بعد وہ اپنی حکومت اور اسمبلی کو بچا پائے تھے؟ بات قانون کی نہیں انسانی رویوں کی ہوتی ہے کوئی قانون کسی انسان یا ادارے کو ادھیڑنے کے اختیارات بھی دیتا ہو تو متعلقہ شخصیت ان اختیارات کو استعمال نہ کرنے کا تہیہ باندھ کر ایسے قانون کو بے ضرر اور غیر موثر بنا دے گی۔ اور جس نے ٹوکہ چلانا ہو گا وہ کسی قانون اور اس کے تحت حاصل کسی اختیار کے بغیر بھی سب کچھ کر گذرے گا اس لئے کسی قانون کو ختم کرا کے خود کو محفوظ سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اصل بات تو رویوں میں تبدیلی کا ماحول پیدا کرنے کی ہے جس کے بغیر نہ سلطانی جمہور کی منزل حاصل ہو سکتی ہے نہ عدلیہ کی آزادی کارگر ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ سوچ کر سسٹم کے لئے اطمینان قلب حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات تو ”ملٹی ٹیک اوور“ کی قطعاً اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی موجودہ آرمی چیف کے ذہن میں ایسا کوئی خناس موجود ہے۔
لیکن ذرا گزشتہ مارشل لاﺅں کے پس منظر اور اسباب کا تو جائزہ لیجئے۔ کیا اس وقت بھی ایسی سوچوں کا غلبہ نہیں ہوتا تھا کہ ملک کے حالات کسی نئے مارشل لاءکے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان سوچوں کے باوجود جرنیلی طالع آزما اپنی مہم جوئی کا شوق پورا کرتے اور عرصہ دراز تک خود کو مسلط رکھتے رہے۔ ان کے آنے کے حالات نہ ہونے کے باوجود وہ آتے اور اپنے ابتدائی عرصہ میں عوامی پذیرائی بھی حاصل کرتے رہے تو اب تو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے لائے گئے جمہوری سلطانوں کے ہاتھوں ”نکونک“ ہو چکے ہیں۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سہتے سہتے بے جان اور ہلکان ہو چکے ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی عوام کی ان مسائل سے نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی تو کیا انہوں نے اس ترمیم کی منظوری کے لئے سیاستدانوں کے ایکے کا تعویز بنا کر گلے میں لٹکانا ہے جبکہ اس ترمیم کی منظوری کے بعد تو عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک بھی پڑے گا۔ پھر کس برتے پر ایکے کا جشن منا رہے ہو بھائی؟
بس یہی ایک موضوع اس وقت ”ٹاک آف دی ٹاون“ ہے گزشتہ روز ایک وکیل دوست کے بیٹے کے ولیمہ میں شریک ہوا تو وہاں موجودہ اور سابق جج حضرات اور نمائندہ وکلاء18 ویں آئینی ترمیم کے بخئے ادھیڑتے اور ساتھ ہی ساتھ چاک رفو کرنے کے ”شغل کارآمد“ میں مصروف نظر آئے۔ عدلیہ کی آزادی سے لے کر ممکنہ ماورائے آئین اقتدار تک تمام کٹھنائیوں کو عبور کرنے‘ گتھیاں سلجھانے‘ ٹانکے لگانے اور ساتھ ہی ساتھ بے پر کی چھوڑنے کے لئے بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے ممکنات و ناممکنات کا بے دردی اور پھر دردمندی کے ساتھ جائزہ لیا جا رہا تھا۔ 18 ویں آئینی ترمیم اور این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدآمد کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کارروائی کے محاسن و مضمرات پر بیک وقت بحث ہو رہی تھی۔ ایک نئے نئے ”نڈر“ وکیل راہی صاحب بھی سپریم کورٹ بلڈنگ میں اپنا داخلہ بند ہونے کے ثبوت جیبوں میں ٹھونسے اور بغل میں دابے شادی کی اس محفل میں گھومتے پھر رہے تھے۔ اپنی بے باکیوں کے کارنامے سنائے چلے جا رہے تھے اور پھر داد سمیٹنے کے لئے ہر نشست کے ساتھ معانقہ‘ مصافحہ کی نوبت لا رہے تھے۔ اٹارنی جنرل انور منصور کا استعفیٰ بھی زیر بحث آ گیا اور سیکرٹری قانون کی سپریم کورٹ کے روبرو ”بے باکی“ پر بھی داد تحسین کے ڈونگرے برسانے کے اہتمام ہوتا رہا۔ 18 ویں آئینی ترمیم پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے موقف کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے اتفاق رائے کے معاملہ کا بھی حیرت‘ بے یقینی اور کسی ممکنہ مثبت نتیجے کے تناظر میں جائزہ لیا جا رہا تھا اور نتیجہ اخذ کیا جا رہا تھا کہ یہی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت اور علامت ہے۔ اب کسی طالع آزما جرنیل کو سیاستدانوں کے اس ایکے کے سامنے سر اٹھانے اور جمہوریت کو کھلونا بنانے کی جرات نہیں ہو گی۔ وکلاءکا ایک گروپ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے موجودہ جوڈیشل ایکٹوازم پر اپنے خوفناک تحفظات کا اظہارکر رہا تھا تو دوسرے گروپ کو اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججوں کے جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تقرر کی تجاویز کی بنیاد پر 18 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں مشکل ہی سے منظوری کے مراحل طے کرتی نظر آ رہی تھی۔ مسلم لیگ (ق) پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔ ”اب 18 ویں آئینی ترمیم کے لئے تو بہر صورت مسلم لیگ (ق) کی حقیقت کو انہیں تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ کیا مسلم لیگ (ق) کو خود اس حقیقت کا ادراک نہیں؟ یقیناً ہے تو وہ اتنی آسانی سے 18 ویں آئینی ترمیم کے حق میں تھوڑا ووٹ دے دے گی۔ اپنی شرائط کیوں نہیں منوائے گی۔ پھر 18 ویں ترمیم کے لئے آپ سیاستدانوں کے ایکے کو کہاں لے کر جائیں گے۔؟“
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
غرض جتنی سوچیں تھیں‘ اتنی بولیاں تھیں‘ یاروں نے 18 ویں ترمیم کے صدقے سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ بھی کر دی اور اسے مضبوط و مستحکم بھی بنا دیا۔ اتفاق نظر آیا تو صرف اس بات پر کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کراتے ہوئے حکومت صدر مملکت کے خلاف سوئس کورٹ میں مقدمات ری اوپن کرانے کے لئے رجوع کرے گی تو اس حکومت اور صدر کے برقرار رہنے کا بھلا کیا جواز بچے گا۔ وزیر اعظم تو 18 ویں آئینی ترمیم کا زیور پہن کر سجنے‘ سنورنے اور مستحکم ہونے کا اہتمام کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ صدر کے خلاف کیس ری اوپن کرانے کی ہدایات دے کر اسی حکومت کی بنیادیں ہلانے کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ کیا یہ اداروں کے ٹکرا¶ کی کیفیت نہیں ہے اور اس صورت میں بھلا 18 ویں ترمیم سسٹم کو تہہ و بالا ہونے سے بچانے کے لئے کیا کردار ادا کر پائے گی۔ کیا پہلے کوئی قانون یا کسی قانون کا خاتمہ طالع آزما¶ں کا راستہ روک پایا ہے۔ دفعہ 58(2)B میاں نواز شریف نے بھی تو پارلیمنٹ کے ذریعہ یک قلم چاک کرائی تھی۔ پھر اس اختیار سے صدر کو بے اختیار کرانے کے بعد وہ اپنی حکومت اور اسمبلی کو بچا پائے تھے؟ بات قانون کی نہیں انسانی رویوں کی ہوتی ہے کوئی قانون کسی انسان یا ادارے کو ادھیڑنے کے اختیارات بھی دیتا ہو تو متعلقہ شخصیت ان اختیارات کو استعمال نہ کرنے کا تہیہ باندھ کر ایسے قانون کو بے ضرر اور غیر موثر بنا دے گی۔ اور جس نے ٹوکہ چلانا ہو گا وہ کسی قانون اور اس کے تحت حاصل کسی اختیار کے بغیر بھی سب کچھ کر گذرے گا اس لئے کسی قانون کو ختم کرا کے خود کو محفوظ سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اصل بات تو رویوں میں تبدیلی کا ماحول پیدا کرنے کی ہے جس کے بغیر نہ سلطانی جمہور کی منزل حاصل ہو سکتی ہے نہ عدلیہ کی آزادی کارگر ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ سوچ کر سسٹم کے لئے اطمینان قلب حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات تو ”ملٹی ٹیک اوور“ کی قطعاً اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی موجودہ آرمی چیف کے ذہن میں ایسا کوئی خناس موجود ہے۔
لیکن ذرا گزشتہ مارشل لاﺅں کے پس منظر اور اسباب کا تو جائزہ لیجئے۔ کیا اس وقت بھی ایسی سوچوں کا غلبہ نہیں ہوتا تھا کہ ملک کے حالات کسی نئے مارشل لاءکے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان سوچوں کے باوجود جرنیلی طالع آزما اپنی مہم جوئی کا شوق پورا کرتے اور عرصہ دراز تک خود کو مسلط رکھتے رہے۔ ان کے آنے کے حالات نہ ہونے کے باوجود وہ آتے اور اپنے ابتدائی عرصہ میں عوامی پذیرائی بھی حاصل کرتے رہے تو اب تو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے لائے گئے جمہوری سلطانوں کے ہاتھوں ”نکونک“ ہو چکے ہیں۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سہتے سہتے بے جان اور ہلکان ہو چکے ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی عوام کی ان مسائل سے نجات کا ذریعہ نہیں بنے گی تو کیا انہوں نے اس ترمیم کی منظوری کے لئے سیاستدانوں کے ایکے کا تعویز بنا کر گلے میں لٹکانا ہے جبکہ اس ترمیم کی منظوری کے بعد تو عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک بھی پڑے گا۔ پھر کس برتے پر ایکے کا جشن منا رہے ہو بھائی؟