(Life Time Achievement Award) پیش کیا۔ صحافت کی آزادی کے تحفظ کیلئے سیاسی اور مارشل لاء حکومتوں کے تمام ادوار میں ثابت قدم رہنا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت کو اپنے عمل سے مضبوط کرنا مجید نظامی صاحب کا بلاشبہ عظیم کارنامہ ہے لیکن ان کا اس سے بھی عظیم تر کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اُس مشن کی تکمیل کیلئے اپنی تمام صلاحتیں وقف کر دیں جو قائداعظم محمد علی جناح نے انکے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کو مارچ 1940 میں ’’نوائے وقت‘‘ کے اجراء کے وقت تفویض کیا تھا۔ اس مشن کے عناصر اربعہ میں اولیت اسلام کو حاصل ہے۔ جو دین حق ہے اور جس کی اساس قرآن کلیم ہے جو نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺ پر وحی کے وسیلے سے اتارا گیا۔ دوسرا عنصر پاکستان ہے جو کفرستان ہند سے مسلمانوں کے ایک آزاد وطن کے طور پر حاصل کیا گیا تھا اور مقصود اس نو آزاد ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا تھا۔ اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کیلئے نظریاتی جہت علامہ اقبال نے متعین کی اور اسکے نقوش خطبہ الہ آباد سے روشن ہونے شروع ہوئے تو عملی تعبیر کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میسر آئی جو ہندوستان کی سیاست میں ناقابل تسخیر‘ ناقابل خرید اور عملی سیاست میں جمہوری اقدار پر سختی سے عمل کرنیوالے تھے۔ مجید نظامی صاحب نے اسلام اور پاکستان کیساتھ تصورات اقبال اور قائداعظم بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بھی سیاسی کردار اور عمل کو فوقیت دی اور انکی تبلیغ و تشریح کیلئے ’’نوائے وقت‘‘ کو مختص کر دیا۔ صحافت اب انڈسٹری بن چکی ہے، بہت سے اخبارات نے جدید صحافت کے صنعتی تقاضوں کو قبول کیا ہے اور اب بیشتر اخبارات ’’قاری اساس اصول‘‘ پر چل رہے ہیں لیکن مجید نظامی صاحب کا ’’نوائے وقت‘‘ اس نظریاتی جہت پر قائم ہے جو ’’نوائے وقت‘‘ کی عنان ادارت 1962ء میں سنبھالتے وقت ا نہیں جناب حمید نظامی مرحوم سے ملی تھی۔ مجید نظامی صاحب نظریہ اساس صحافت کے علمبردار ہیں اور یہی ان کا تشخص ہے۔
جناب حمید نظامی اپنی زندگی کے آخری دور میں اس ملال سے بھی دوچار ہوئے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے جو ملک جمہوری عمل سے اسلام کی تجربہ گاہ اور جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے حاصل کیا تھا‘ اس پر چند طالع آزماؤں نے قبضہ کر لیا اور پھر اس پر جنرل ایوب خان نے جنہیں سرحدوں کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا پورے ملک پر مارشل لاء کی آکاس بیل پھیلا کر اس کے تدریجی ارتقاء کے سامنے سدّ سکندری کھڑی کر دی۔ ایوبی مارشل لاء کی گھٹن نے حمید نظامی کو عارضہ قلب میں مبتلا کر دیا اور ان کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔ حمید نظامی کی اس جان کاہ علالت کے دوران مجید نظامی لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ شورش کاشمیری نے انہیں بڑے بھائی کی تشویش ناک علالت کی خبر دی تو مجید نظامی پہلی فلائیٹ سے لاہور آگئے۔ حمید نظامی نے بستر مرگ پر چھوٹے بھائی کی آمد کو جبلت کی سطح محسوس کیا اور آنکھیں کھول کر صرف اتنا کہا۔ اچھا تم آگئے؟ ’’مجید نظامی نے بادیدہ نم کہا ’’ہاں‘‘ میں آگیا ہوں‘‘… اور اس کے ساتھ ہی جیسے حمید نظامی نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنی جان … جاں آفریں کے سپرد کر دی۔
حمید نظامی صاحب کو مارشل لاء کی گھٹن نے یہ احساس دلایا تھا کہ ان کا پیمانہ عمر کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے مجید نظامی صاحب کو اپنی زندگی میں اپنا جانشین اور نوائے وقت کا ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔ اس وقت انگلستان پلٹ مجید نظامی کی عمر صرف 34 برس تھی لیکن انہوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کا مقابلہ پوری جوانمردی سے کیا اور نوائے وقت کے قارئین کو یقین دلا دیا کہ اسکی نظریاتی جہت قائم رہتی ہے۔ حمید نظامی نے اپنی ادارت کے 24 برس کے دور میں ’’نوائے وقت‘‘ کو ہفت روزہ سے ایک موثر روزنامہ بنایا اسکی نظریاتی جہت متعین کی نئے صحافیوں کیلئے اس اخبار کو تربیت گاہ کا درجہ دیا اور پڑھنے والوں کو نہ صرف نوائے وقت کا مزاج آشنا بنایا بلکہ اس اخبار نے خبر کی صحت اور رائے کی دیانت میں قاری کا اعتماد بھی حاصل کیا جو لمحاتی نہیں بلکہ دوامی تھا اور پھر مجید نظامی کی ادارت میں نوائے وقت کا نیا دور شروع ہوا تو اسکے تمام انداز حمید نظامی جیسے تھے تاہم سائنس کی نئی ایجادات نے صحافت میں نئے رنگ بھرنے شروع کر دئیے تھے آزادی کے بعد آبادیوں کے تبادلے نے جس مخلوط معاشرے کو جنم دیا تھا اسکی اخلاقیات اور اقدار کے زاویے بھی مختلف تھے مجید نظامی نے اخبار کی پیش کش کے سلسلے میں تکنیکی تبدیلیوں کو قبول کرنے میں تاخیر نہ کی لیکن دوسری طرف سیاست کے متزلزل عمل میں اسلامی قدروں اور دینی اخلاقیات کے ساتھ اثبات و استحکام پاکستان کو فوقیت دی۔ اب مجید نظامی کی عملی صحافت کے گزشتہ 60 سال پر نظر ڈالیں تو وہ حکمرانوں کے کڑے نقاد اور بنیادی طور پر ’’حزب اختلاف‘‘ کے فرد فرید نظر آتے ہیں جس کا بنیادی مقصد پاکستان اور نظریہ پاکستان کا تحفظ ہے جس کے چار بنیادی عناصر کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن اب اس میں یہ وسعت بھی پیدا ہو چکی ہے کہ پورے عالم اسلام کے مسائل پر مثبت زاویہ نظر پیش کرنا اور باطل کی قوتوں کو جرأت اور دلیری سے نشان زد کرنا بھی نوائے وقت کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔
عملی صحافت میں مجید نظامی صاحب کی انفرادی عطا یہ ہے کہ انہوں نے نوائے وقت کو ایک بااثر روزنامے کی حیثیت میں قائم رکھتے ہوئے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ خاندان کا رسالہ ’’فیملی میگزین‘‘ اور بچوں کا رسالہ ’’پھول‘‘ جاری کیا‘ ندائے ملت جو ان کا ڈیلی اخبار تھا‘ جب 1970ء میں ان کیخلاف کُوڈِٹا ہوا‘ اسے ویکلی بنا دیا تاکہ ندائے ملت کا نام زندہ رہے‘ آج کے نوائے وقت کی مالک بھی ندائے ملت لمیٹڈہے اور آج نوائے وقت گروپ صحافت کی امپائر بن چکا ہے جس میں وقت نیوز ٹی وی چینل بھی شامل ہے جس کے تمام امور کی نگرانی انکی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی کرتی ہیں‘ جو برطانیہ سے سیاسیات کی سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس صحافتی ایمپائر کے تمام اثاثے ایک ٹرسٹ کی تحویل میں ہیں جس میں مجید نظامی صاحب کی حیثیت ایک مخلص رہبر اور تجربہ کار رہنما کی ہے۔ انکی قومی خدمات کا دائرہ اس ٹرسٹ کے اداروں تک محدود نہیں بلکہ انکے کریمانہ طرز عمل کے نقیب متعدد فلاحی اور نظریاتی ادارے ہیں جو قوم کی تربیت صحت مند خطوط پر کر رہے ہیں اور نوجوان نسل کو مثبت رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔ ’’نوائے وقت فنڈ‘‘ نے کشمیری عوام‘ زلزلہ اور سیلاب زدگان کے علاوہ مشرقی پاکستان میں 1971ء کے بعد رہ جانیوالے (محصورین پاکستان) پاکستانیوں کی جس طرح مالی مدد کی ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میں ذاتی طور پر ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ایک رکن کی حیثیت میں دیکھتا کہ لوگ ’’نوائے وقت فنڈ‘‘ میں بلینک چیک بھیج دیتے کہ اس پر رقم نظامی صاحب خود لکھ لیں۔ اعتماد کی یہ فضا بدقسمتی سے ہماری حکومت کو حاصل نہیں ہو سکی۔
اس مختصر تحریر سے یہ حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مجید نظامی صاحب کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یہ آزادی صحافت تک محدود نہیں۔ اب دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیے کہ مجید نظامی صاحب کی سرپرستی میں یہ ایمپائر ترقی کرتی رہے‘ قائم و دائم رہے۔