امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی

انتخابات کا دن بڑی تیزی سے قریب آ رہا ہے یا ہم بہت برق رفتاری سے انتخابات کے دن کی طرف رواں رواں ہیں۔ بہت سے مراحل طے ہو چکے ہیں اور بہت سے مراحل ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ اس وقت الیکشن کمشن اور اعلیٰ عدلیہ آئندہ امیدواروں کی چھان پھٹک میں مصروف ہیں۔ ہر جمہوریت پسند اور محب وطن شہری کی خواہش ہے کہ اب جو حکمران آئیں وہ سچے پاکستانی اور پکے مسلمان ہوں۔ ایماندار ہوں، ملک و قوم کا درد ان کے سینے میں ہو اور وہ اس غریب ملک کے پسے ہوئے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں۔ عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی پر زور دیا ہے۔ الیکشن کمشن بھی اسی کوشش میں ہے کہ آئندہ حکومت باکردار اور محب وطن لوگوں پر مشتمل ہو.... جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے اور امید ہے کہ تمام جعلی ڈگری ہولڈر امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ریونیو بلز اور انکم پراپرٹی ٹیکس نادہندگان، قرض و رشوت خوردگان، کرپشن کردگان، دوہری شہریت یافتگان، قانون شکستگان کو یکسر نااہل قرار دے دیا جانا چاہئے۔
فارسی کا مقولہ ہے کہ ”آزمودہ را آزمودن جہل است“ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے۔ لیکن بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں آزمودہ شخص یا چیز ہی کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے عوام کے اعتماد کو نہ صرف ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے، ایسے لوگوں کو تو عوام خود اپنے ووٹ کی قوت سے ماضی کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیں۔ اور جس حکمران اور پارٹی نے عوام کی خدمت کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے دوبارہ موقع دینا چاہئے تاکہ وہ آئندہ پانچ سال جم کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کر سکے۔
بہت سی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی پارٹی نے وزیروں اور مشیروں کی لامحدود مراعات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ پروٹوکول کی آڑ میں عوام کو دی جانے والی زحمت بلکہ اذیت سے متعلق کچھ نہیں کہا۔ کیا کوئی جماعت یہ اعلان کر سکتی ہے کہ رعایا کی مراعات میں کمی کی جائے گی تاکہ ایک تو قومی خزانے پر بوجھ کم ہو دوسرے ہم ایسے مقروض ملک کا کچھ قرض اتر سکے؟ پروٹوکول کی مد میں خرچ ہونے والے کروڑوں روپوں میں کمی کی جائے اور وفاقی ویزر ہو یا صوبائی.... اسے ایک گاڑی، ایک ہوٹر اور ایک پولیس وین پروٹوکول کے لئے کافی ہونی چاہئے۔ اگر ایران کا صدر بغیر پروٹوکول کے اپنے ملک کے بازاروں میں گھوم پھر سکتا ہے، اپنے گھر کا سودا سلف خود خریدنے بازار جا سکتا ہے۔ تو ہمارے حکمران کیا اکبر اعظم کے پیروکار ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے پروٹوکول کی طویل قطار چاہئے اور تمام سڑکیں بند کر کے ٹریفک جام کر کے عوام کو روح فرسا تکلیف دے کر گزرنے میں لطف آتا ہے؟ آئندہ حکمرانوں کو صحیح معنوں میں اسلامی اور فلاحی مملکت کا نمائندہ ہونا چاہئے۔ اور یہ اللے تللے بند کرنے چاہئیں۔ ایسا انقلابی اقدام کون سی پارٹی اٹھانے کی جرات کرے گی۔ جہاں وزارت پھولوں کا تاج نہیں، کانٹوں کاہار ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ایران کے حکمرانوں کی پیروی کرنا چاہئے جن کا صدر احمدی نژاد امریکی دورے پر آٹھ دن ایک ہی سوٹ میں گزار دیتا ہے اور اسی سوٹ میں عالمی لیڈروںسے ملاقات بھی کرتا ہے۔ وہ اس بات پر شرمندہ نہیں کہ اس کے پاس دوسرا سوٹ نہیں بلکہ وہ اس بات پر نازاں ہے کہ وہ ایک غیور، دلیر، آزاد اور خود مختار اور سربلند قوم کا صدر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چھینک آتی ہے تو یہ امریکہ اور یورپ علاج کے لئے بھاگ اٹھتے ہیں اور اپنی عیاشیوں پر کروڑوں ڈالر خرچ کر کے قوم کو مقروض کرتے چلے جا رہے ہیں۔
آنے والے حکمرانوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم ایک مقروض اور غریب قوم ہیں۔ سرکاری اخراجات بقدر ضرورت ہونے چاہئیں۔ ملک سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ کالا باغ سمیت کئی بڑے ڈیم بنانا چاہئیں۔ ایران کے ساتھ گیس منصوبے کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے۔ تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے جملہ مسائل کا حل تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ ستر فیصد جہالت والے ملک میں ووٹ کے ذریعے کسی بڑے انقلاب کی امید کرنا بھی خوش فہمی کے مترادف ہے۔
 بنگلہ دیش پاکستان کے مقابلے میں بہت غریب ملک ہے۔ لیکن وہاں لوڈ شیڈنگ نام کی کوئی چیز نہیں۔ وہاں شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ پاکستان کے حالات دیکھ کر بہت سے انڈسٹریلسٹ بنگلہ دیش شفٹ ہو گئے ہیں کیونکہ وہاں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں۔ لیبر سستی ہے اور لوگ ایماندار ہیں۔ اپنی ڈیوٹی پوری توجہ اور انہماک سے کرتے ہیں۔
ہمارے مقابلے میں بھارت کے حکمران انپے ملک کے ساتھ بے حد محبت رکھتے ہیں اور ہمارے دریاﺅں پر ڈیم پر ڈیم بنائے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت میں زراعت کے لئے بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ وہاں فیوڈل ازم نہیں ہے۔ غربت اگرچہ ہم سے زیادہ ہے لیکن شرح خواندگی ستر سے اسی فیصد ہے۔ ہمیں اگر پاکستان میں انقلاب برپا کرنا ہے تو شرح خواندگی کی طرف سے زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ جب تک ہمارے ملک سے جہالت کے اندھیرے نہیں چھٹ جاتے ہمارے مسائل کم ہیں ہوں گے۔ امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں صاف ستھری، ایماندار، محب وطن اور باکردار قیادت ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گی۔ (انشااللہ)
سبق پھر پڑھ صداقت کا، دیانت کا شرافت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
(اقبالؒ)

ای پیپر دی نیشن