امریکہ اور شمالی کوریا میں بڑھتی کشیدگی عالمی ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتی ہے

کورین پیپلز آرمی کے جنرل سٹاف نے کہا ہے کہ امریکی دھمکیوں کا چھوٹے، ہلکے اور مختلف قسم کے نیوکلیئر ہتھیاروں سے مقابلہ کیا جائے گا تاہم امریکہ پر جوہری حملے کی حتمی منظوری مل گئی ہے۔ جبکہ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کی دھمکیاں امریکہ اور اس کے اتحادی جنوبی کوریا اور جاپان کے لئے حقیقی اور واضح خطرہ ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس ایٹمی صلاحیت اور میزائل صلاحیت ہے، ہم نے ان دھمکیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے، ہم ہر وہ کچھ کریں گے جو ہم کر سکتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہروشیمااور ناگا ساکی پر ایک ایک ایٹم بم پھینکا گیا تھاجس میں ہزاروں افراد تڑپ تڑپ کر مر گئے اور لاکھوں معذور ہوئے ۔انسانیت ایسے ظلم اور بربادی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ آج ایٹمی ٹیکنالوجی میں بڑی جدت پیداہو چکی۔ اب خدا نخواستہ ایٹم بم استعمال ہوا تو 1945ءمیں ایٹم بم سے ہونے والی بتاہی سے کہیں زیادہ ہوگی۔امریکہ نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے ۔اس سے پوری دنیا متفق نہیں ہے ۔ وینز ویلا ، ایران اور شمالی کوریا امریکی ایجنڈے کے مخالف اور اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔کئی دیگر ممالک بھی مذکورہ ممالک کے ہمخیال ہونگے جو بوجوہ خاموش ہیں۔امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین مخالفت مزید بڑھی تو دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہوکر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گے ۔ امریکہ چونکہ واحد عالمی سپر پاور ہے اس حوالے دنیا میں قیام امن کے لئے اس کا کردار اہم ہے ۔ اس کے اپنے یقینا مفادات ہوسکتے ہیں لیکن ان کی خاطر عالمی امن کو داﺅ پر لگانا دانشمندی نہیں۔شمالی کوریا کاجوہری حملوں کے حوالے سے بیان ہوسکتا ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کا شاخسانہ ہو۔اس پر امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے بجائے اپنی ایسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے جن پر شمالی کوریا جیسے ممالک کے تحفظات ہیں۔دنیا اب ایک بھی ایٹم بم کی متحمل نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا بم پھٹنے لگے ۔شمالی کوریا کو بھی حالات اس نہج پر نہیں لے جانے چاہیئےں کہ حریف اس پر پہلے وار کردیں۔عالمی برادری فریقین کو سمجھانے کی سعی کرے۔اقوام متحدہ بھی اپنے یکطرفہ جھکاﺅ کی پالیسی سے رجوع کر کے دنیا کو تباہ کن جنگ سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ای پیپر دی نیشن