انتظار کسی بیبرس کا

Apr 05, 2014

غلام اکبر

بات جب بھی تاریخ کی ہوتی ہے تو چند نام ایسے ہیں جو ذہن میں ابھرے بغیر نہیں رہتے۔ اُن میں ایک نام ہیروڈوٹس کا ہے جسے تاریخ کا باپ قرار دیا جاتا ہے اور ایک نام ابن خلدون کا ہے جنہیں مورخین بھی فلسفہ ء تاریخ کا بانی قرار دیتے ہیں۔ بڑے نام تو لاتعداد ہیں لیکن یہاں طبری ٗ ترمذی ٗ ابن اثیر ٗ ابن کثیر ٗ فرشتہ کا ذکر کردینا کافی ہے۔ دورِ جدید کے بڑے اور ناموں میں گِبنز ٗ ہٹی ٗ ایچ جی ویلز ٗ سپنزر ٗ ٹائن بی اور پال کینیڈی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اس بات پر دو آرا ء نہیں پائی جاتیں کہ ہر تاریخ دان اور تاریخ نویس شخصیات واقعات اور اُن کے ساتھ منسلک عوامل کو اپنے مخصوص خیالات اور رحجانات کی نظر سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مورخ بھی ایک ایسا ہی انسان ہوتا ہے جس کے مخصوص خیالات اور رحجانات ایک مخصوص انداز میں ایک مخصوص ارتقائی عمل اور تبدّل کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ذہین شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جس کے افکار ایک مقام پر جامد ہو کر رہ گئے ہوں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر اور عظیم مثال حضرت عمر فاروق ؓ  کی دی جاسکتی ہے۔ وہ گھر سے کس قابلِ نفرت ارادے سے نکلے تھے اور ان کے خیالات اور احساسات کا رخ کس جانب تھا اِس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب وہ پیغمبرِ اسلام )ﷺ(کے گھر داخل ہورہے تھے تو اُن کے اندر کی دنیا میں کتنا عظیم انقلاب آچکا تھا۔ تاریخ کی نظروں میں وہ ’’ عمر ‘‘ اپنا وجود کھو چکاہے جس کے ہاتھ میں تلوار تھی اور دل میں آنحضرتؐ  کو شہید کرنے کا عزمِ راسخ تھا۔ تاریخ اب جس فاروق اعظمؓ کو جانتی ہے وہ ’’ سلطنتِ اسلامیہ ‘‘ کا معمار تھا اس ضمن میں ہم مثالیں علامہ اقبال ؒ  اور قائداعظمؒ کی بھی دے سکتے ہیں۔ ایک اقبال وہ تھے جنہوں نے ’’ اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان ‘‘ لکھی تھی اور ایک اقبال وہ سامنے آئے جن کی ایک ایک تحریر اور جن کے ایک ایک لفظ نے وطن پرستی کے بت کو پاش پاش کیا اور جن کے زرخیز ذہن سے صرف مسلمانانِ ہند کے لئے ہی نہیں ٗ سارے عالمِ اسلام کے لئے یہ پیغام نکلا کہ ’’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے ‘‘۔
اِسی طرح ایک ’’ جناح ‘‘ وہ تھے جن کی تمام تر کاوشیں ہندومسلم اتحاد اور مذہبی امتیاز سے آزاد ہندوستانیت کے لئے وقف تھیں ٗ اور ایک  ’’ جناح ‘‘ وہ سامنے آئے جن کی رگ و پے میں ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ خون بن کر دوڑ رہا تھا جنہیں مسلمانانِ برصغیر نے اپنا قائداعظم قرار دیا اور جن کے مقدر میں بابائے قوم اور بانی ء پاکستان کے خطابات لکھے جاچکے تھے۔
 یہاں میں واپس اُس موضوع کی طرف جائوں گا جس پر میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں روشنی ڈالی تھی۔
عظیم تاریخ کو عظیم خواب جنم دیتے ہیں۔ اگر ہم آنحضرت ؐ  کی پیغمبرانہ حیثیت کو الگ رکھ کر صرف آپ ؐ  کی بشری شخصیت کا ہی جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہیں گے کہ نزولِ وحی سے قبل ہی آپ ؐ  حجاز کی بالخصوص اور پوری انسانی تہذیب کی بالعموم حالت تبدیل کرڈالنے کا عظیم خواب دیکھ رہے تھے۔ جب تک آپ ؐ  پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی اور آپ ؐ  پر یہ حقیقت عیاں نہیں تھی کہ آپ خدا کے آخری پیغام کے امین بننے والے ہیں ٗ تب تک بھی آپ کی پوری زندگی انسانی تمدن میں ایک عظیم انقلاب لانے کے خواب میں لپٹی ہوئی تھی۔ آپ ؐ  کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جو پیغمبرانہ شان سے عاری تھا۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ خواب جو تاریخ تبدیل کرڈالتے ہیں قدرت کی طرف سے ہی عطا ہوتے ہیں۔ جو تاریخ مورخ واقعات کے رونما ہونے کے بعد لکھا کرتے ہیں اس تاریخ کو قدرت پہلے ہی لوحِ محفوظ پر نقش کرچکی ہوتی ہے۔ قدرت کی طرف سے پہلے ہی یہ طے ہوچکاہوتا ہے کہ کون سا بطلِ جلیل کس خواب کو سینے سے لگائے روئے زمین کے کس کونے سے نمودار ہوگا۔ اِسی ضمن میں میرا دعویٰ یہ ہے کہ اقبال ؒ  اور جناح ؒ  کا ایک ہی عہد میں ایک ہی سرزمین پر پیدا ہونامنشائے الٰہی کے اُس مخصوص ایجنڈے کا مظہر تھا جسے ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان نے پہلے ایک خواب کے طور پر جنم لیا۔ پھر اِس خواب کی تعبیر واقعات کے ایک سلسلے کے ساتھ سامنے آتی چلی گئی۔ اپنی گزشتہ تحریر میں میں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آج پھر ہمیں ایک خواب کی ہی ضرورت ہے جو اقبال ؒ  اور جناح ؒ  جیسا ہی کوئی بطلِ جلیل دیکھے اور جس کی تعبیر اس شان سے سامنے آئے کہ ساری دنیا ہمارے پرچم کو رشک اور احترام کی نظروں سے دیکھے۔
اپنے اس موقف کی وضاحت کے لئے میں اپنی تاریخ کے دو عظیم عہد ساز رجال کاذکر کروں گا۔ ایک کا نام صلاح الدین ایوبیؒ  تھا اور دوسرے کا  بیبرس۔
صلاح الدین ایوبی کی پیدائش جن حالات میں ہوئی وہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ اُن کے والد اپنے شہر کے کوتوال کے ڈر سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے گھر سے فرار ہوئے۔ وہ رات بڑی تاریک تھی اور وہ جنگل بڑا گھنا اور ڈرائونا تھا جس میں صلاح الدین نے جنم لیا۔ اُن کے والد نے خدا سے گلہ یہ کیا کہ یہ بچہ کیسی سیاہ تقدیر کے ساتھ پیدا ہوا ہے کہ ہم اس جنگل میں یوں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے سامنے جو بچہ آنکھیں کھول رہا تھا اس کے ہاتھوں عالمِ اسلام کی نئی تاریخ جنم لینے والی تھی اور اہل صلیب کے ظالمانہ قبضے سے بیت المقدس کو آزادی ملنے والی تھی۔صلاح الدین ایک خواب کے ساتھ پروان چڑھے اور خود ہی اپنے خواب کی تعبیربن گئے۔ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مشرق وسطیٰ کے دروازے نصرانی عزائم پر بند کئے جاچکے تھے۔
عین وہی زمانہ تھا جب دنیا کے دوسرے کونے سے صحرائے گوبی کا ایک چرواہا تموجن طوفان بن کر اٹھا اور چنگیز خان کے نام سے دنیا پر چھا گیا۔ اس خونخوار وحشی اور اس کے جانشینوں کے ہاتھوں عالمِ اسلام نے جو تباہی و بربادی بپا ہوتے دیکھی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ سطوت اسلامیہ کی تمام علامتیں وسطی ایشیا سے بغداد تک انسانی خون میں ڈبو دی گئیں۔ بغداد کوہلاکو خان نے 1258ء میں تاراج کیا۔جب اس وحشی منگول سالار کی فوج ظفر موج خون کے دریا بہاتی مصر کی طرف بڑھ رہی تھی تو ایک مملوک سردار بیبرس اپنے ایک نائب سے کہہ رہا تھا۔
’’ میں نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ میں خون کے دریا میں تیر رہا ہوں۔ آسمانوں سے ایک صدا آرہی ہے ۔ میں اوپر دیکھتا ہوں تو مجھے ایک تلوار نظر آتی ہے جو میری طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ بیبرس ہاتھ بڑھا اوراسے پکڑ لے۔ میں آسمانی صدا سنتا ہوں۔ میں اس تلوار کو جیسے ہی پکڑتا ہوں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ آج اس تلوار کے استعمال کا وقت آگیا ہے۔ ہلاکو خان کو اس کی موت میری تلوار کی طرف لا رہی ہے۔‘‘
تاریخ جانتی ہے کہ این جالوت کے مقام پر تاتاری فوج کا تصادم سلطان بیبرس کی تلوار کے ساتھ ہوا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس جنگ نے فتنہ ء تاتار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کچل دیا۔ بیبرس کا خواب عالمِ اسلام کے لئے حیات نو کا پیغام بن گیا۔
چند برس قبل جب میں دمشق گیا تو سب سے پہلے میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ  اور سلطان بیبرس کی آخری آرام گاہوں میں دعائے مغفرت کے لئے پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے سے چند سو گز کے فاصلے پر آخری نیند سورہے ہیں۔
اور ہمیں انتظار ہے ایک خواب کا جو کوئی ایوبی ؒ  یا کوئی بیبرس ؒ  دیکھے۔ رحمت الٰہی سے مجھے قوی امید ہے کہ کسی نہ کسی سینے میں یہ خواب انگڑائیاں ضرور لے رہا ہوگا۔

مزیدخبریں