’’ تھر کی سسکتی ممتا، اور تھرکتی شامیں‘‘

 عرب و عجم کے ملکوں کے شہنشاہوں اور انکے زیرنگیں علاقوں کا بلا شرکت غیرے خلیفہ وقت جنگل اور بیابان میں بغیر محافظوں و رکھوالوں کے خدائے واحد لا شریک کو رکھوالا بناکے اینٹ تکیہ بنا کے گہری نیند سو جانے والا‘ خاتم النبینؐ کا تربیت یافتہ صحابی جسکو ایدھی‘ چھیپا‘ حافظ سعید‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور ڈاکٹر آصف جاہ حضرت عمرؓ کو اپنا معیار بنا کر اور مرقع ایثار و قربانی بنکر سادگی و سچائی اپنا کر بقول اولیا اللہ آرائش و زیبائش دنیا کو خیر باد کہہ کر مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں کیونکہ پیوند لگے کپڑے پہننے والے اور چٹائی پہ سونے والے محبوب خدا نے بھی فقر کو پسند فرمایا تھا۔ انہیں شخصیات کیوجہ سے ہمارا ملک قائم ہے وگرنہ تو آپؐ کی آمد سے قبل خدا نے جن اقوام پر غضب و قہر کو کوڑے برسا کر ملوک و قوموں کو نسیت و نابود فرما دیا‘ وہ تمام عادو ثمود فرعون اور نمرود کی علت و ذلت کے اسباب ہم میں بدرجہ اُتم موجود ہیں۔
 ہمیں حیرت پہ حیرت ہے کہ تھر کا زیادہ حصہ تو (راجھستان‘ ہریانہ اور گجرات بھارت) میں ہے اور بقیہ حصہ تقریباً ساڑھے بائیس ہزار مربع میل صوبہ سندھ میں ہے۔ مگر خدا کا غضب بصورت قحط ہم پہ کیوں نازل ہوا؟ شاید محض اس لئے کہ جب ملک میں انصاف مفقود ہو جائے تو ملک محض دولخت ہی نہیں بد بخت بنکر قحط زدہ ہوجاتے ہیں۔ انگریز اتنا عرصہ کامیابی سے محض اس لئے حکمرانی کر گئے کہ انکا انصاف دور موجود ہ دور سے کہیں بہتر تھا کہ مقررہ مدت تک تھر میں بارش نہ ہونے پر جانوروں کیلئے چارہ اور انسانوں کیلئے گندم اور اجناس و اناج بمعہ امداد بلا تعطل فراہم کردی جاتی تھی مگر سندھ ثقافت کے نام پہ اربوں روپے لٹا کر تھرکتی شامیں منانے والے مدہوش، ضعیف العقیدہ، نیم خوابیدہ لوگوں کے بچوں کی لاشوں کو اربوں روپے ان نادار مفلس لوگوں کے نام پہ اکٹھے کرنے والی این جی اوز کی سنہری بالوں والی بیگمات‘ حالیہ قحط میں ایک ہی ساڑھی میں عمر گزار دینے والی تھر کی مائوں کو کیوں فراموش کرکے وہاں بالکل ہی نہیں گئیں اور لاہور و کراچی میں ماں کا دن مناتی رہیں اور اُس ماں کو بھول گئیں جو بارہ سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہے، منہ اندھیرے انسانوں اور جانوروں کے جوہڑ سے پانی کا مٹکا بھر کے بیڑی پی کر دن گذارنے والے نکھٹو شوہر کیلئے ناشتہ بنا کر کھیتوں میں کام کرنے چلی جاتی ہے، شام گئے گھر آکر کھانے پکانے سے فارغ ہی نکھٹو شوہر کی مارپیٹ برداشت کرکے اگلے دن کیلئے کوہلو کے بیل کی طرح جُت جاتی ہے۔ جہاں پینے کا پانی موجود نہ ہو وہاں نہانے اور کپڑے دھونے کا تصورسِرے سے ناپید ہے، تھر میں زیادہ تر ہند و آباد ہیں اور معیشت انہیں کے قبضے میں ہے، مگر استحصال کا یہ عالم ہے کہ کسی بچے کے پائوں میں جوتا نہیں ہوتا، غربت اور ناداری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی وہاں مکمل طور پر سرگم عمل ہیں اور بین الاقوامی طورپر مشہور(تھرکول) کا علاقہ اور میرپور خاص انکی دستبر د میں ہے اور وہ کافروں کو مسلمان بنانے کے نام پہ دوبارہ کافر بنا رہے ہیں، مٹھی شہر میں تقریباً32 ایکڑ پر مشتمل المہدی ہسپتال بنا کر سارے ہسپتال میں قادیانی ملازم بھرتی کرکے تھر کے دوسرے علاقے میں بھی جہاں کوئلہ نکلتا ہے طاہر ہسپتال بنا لیا ہے مگر ہندو سے قادیانی بننے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ آحمدیوں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں۔ قادیانی خاص طورپر میر پور خاص ڈویژن میں صحت اور تعلیم پر پیسہ لگا کر عمر کوٹ میں’’سرمایہ کاری‘‘ کر رہے ہیں مگر افسوس کہ ختم نبوت پہ کام کرنیوالے خواب غفلت میں ہیں اور اسلام کے خلاف لکھ کر کمائی کرنیوالے اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مصروف ہیں حالانکہ ایسی صورتحال سے عہدہ برا ہونے کیلئے مستقل بنیادوں پر دور دراز کے علاقوں تک سکول، ہسپتال بنا کر اساتذہ اور ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے اور آمریت کے جن کو قابو کرنے کیلئے تبلیغی جماعت اور خصوصاً مولانا طارق جمیل صاحب کو وہاں فعال ہوناچاہئے۔ الخدمت، الخیر، فلاح انسانیت، منہاج القرآن، بحریہ ٹائون اور خاص طورپر ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنی کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کیساتھ فوراً موقعہ واردات پہ پہنچے، موقعہ واردات اسلئے کہا مرنے والے معصوم بچوں کا خون، براہ راست قائم علی شاہ اور بلاول کے سر ہے جنہوں نے حکومت کے اربوں روپے راگ رنگ کی محفلوں کی نذر کردئیے، تھر کی ماں سسکتی رہی، انسانیت تڑپتی رہی مگر جوانی مسلسل تھرکتی رہی مگر مفاہمت کی سیاست پنپتی رہی پنجاب سے ڈاکٹر آصف جاہ نے جا کر مٹھی میں کنوئیں کھدوانے شروع کردئیے اور ڈسپنسریاں اور مفت ادویات کا انتظام کرکے ڈاکٹر مولا بخش جونیجو کو تعینات کردیا ہے اور اپنے کردار کی کشش سے چھ خاندانوں کو مسلمان بھی کر آئے ہیں مگر تبلیغی جماعت اور دعوۃ اسلام کے حافظ سعید احمد کو بھی اپنے گھر یعنی تھر کی بیمار پُرسی کیساتھ مزاح پُرسی کرکے اسلامی مزاج میں بدلناچاہئے۔

ای پیپر دی نیشن