اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں جاری غداری کے مقدمے میں پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر فرد جرم عائد پڑھ کر سُنا دی گئی اور ان سے اس پر دستخط لئے گئے۔ سماعت کے دوران پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ انہوں نے بطور صدر اور فوج سربراہ ملک کی خدمت کی اور غداری کے لفظ کا استعمال ان کیلئے تکلیف دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا ملک اور قوم کی بہتری کیلئے کیا اور ان پر عائد تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ واضح رہے کہ پرویز مشرف اس وقت کسی حکومتی ادارے کی تحویل میں نہیں ہیں اور ان پر قائم تمام مقدمات میں وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ پرویز مشرف غداری کے مقدمے میں پیر کو دوسری مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں اس سے پہلے 18 فروری کو جب وہ عدالت میں پیش ہوئے تھے آمر وقت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا تقریباً تین ماہ تک ردوکد کے بعد دوسری مرتبہ آئین شکنی کے الزام میں خصوصی عدالت میں پیشی کے بعد اس اہم مقدمے کی کارروائی آگے بڑھنے کا امکان اپنی جگہ واضح امر ہے لیکن اس کے باوجود تقریباً اس سے ملتے جُلتے مقدمے میں امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کی عدالت سے رعایت لیکر ملک سے باہر چلے جانے اور واپس نہ آنے کے امکانات اور خدشات کی اپنی جگہ موجودگی کے خدشات بلاوجہ نہیں، ان خدشات بارے امکانات کا خاتمہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے والدہ محترمہ کی شدید علالت کے باعث ان کی عیادت کیلئے جانے کے بارے میں درخواست پر حتمی فیصلہ آنے کے بعد ہی ہو گا۔ قطع نظر عدالتی فیصلے کے یہ سوال اپنی جگہ خاصا دلچسپ ہے کہ جس شخص کی خود اپنی صحت کا کل تک یہ عالم تھا کہ وہ تھوڑی ہی دور عدالت میں حاضری میں مانع تھا اچانک اتنی دور پریشانی کے عالم میں سفر کیسے کر پائیں گے۔ بہرحال وطن عزیز میں ایک ایسے تاریخی آمر وقت جو فوج ہی نہیں چیف ایگزیکٹو اور صدر مملکت جیسے عہدوں پر فائز رہا ہو ان کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ معمولی بات نہیں جس کے ملک و قوم کے مستقبل اور استحکام جمہوریت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
غداری کیس میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد بھی یہ خدشات موجود ہیں کہ ملزم ملک سے باہر نکل جائے گا۔ ایک طیارہ ائر بیس پر تیار کھڑا ہوا ہے اور گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ پرویز مشرف کو لے جانے کیلئے آیا ہے۔ اس وقت نواز شریف حکومت کے سامنے کئی راستے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت اس معاملے سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ لیکن کیسے؟ ایک خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف کو سزا سُنا دی جائے اس کے بعد انہیں اپنی والدہ کی عیادت کے بہانے ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر باہر جانے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کو سزا ہو اور اس پر عمل بھی ہو۔ تیسرا یہ کہ صدر مملکت کے ذریعہ انہیں معافی دے دی جائے۔ صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے معافی کی درخواست دی تو وزیراعظم کی سفارش پر عمل کروں گا۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں آئین کے تحت وزیراعظم کی تجویز ہی پر فیصلہ کر سکتا ہوں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر پہلے ہی پرویز مشرف کو معاف کر چکے ہیں۔
معاملات جس رُخ پر جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت مل جائے گی، پھر کون واپس آتا ہے۔ پرویز مشرف کی طرف سے خصوصی عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ انہیں اپنی والدہ کی عیادت کیلئے جانے دیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا چنانچہ اس کے لئے حکومت سے رجوع کیا جائے۔ بہرحال ایک غدار پر فردِ جرم عائد ہونا ہی بہت اہم واقعہ ہے۔ منگل کو ایوان وزیراعظم میں اس مسئلہ پر (ن) لیگ کی قیادت کے اجلاس میں رائے تقسیم ہو گئی تھی۔ پہلے اجلاس کے بعد مسلح افواج کے سربراہ راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام کی ایوان وزیراعظم آمد بھی اہم ہے۔ فوجی افسران نے بھی جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ پرویز مشرف اور ان کے وکلا کی یہ کوشش تو ناکام ہو چکی ہے کہ فردِ جرم ہی عائد نہ ہو۔ اب اگر وہ باہر بھی چلے جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں سزا سُنائی جا سکتی ہے۔ پھر وہ بھلے ہی پاکستان نہ آئیں اور اپنے سرپرستوں سے اپنی خدمات کا معاوضہ وصول کرتے رہیں۔ یہ بڑی عبرت کی جائے ہے کہ کل تک سیاہ و سفید کا مالک‘ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو تہس نہس کرنے والا‘ معزز ترین ججوں کو برطرف کرنے اور افغان مسلمانوں کے قتل میں امریکہ کا ساتھ دینے والا آج کتنا بے بس ہے‘ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کو انہوں نے عوام کی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا تھا۔ آج وہ عوام اور ان کی طاقت کہاں ہے؟ یہ ہر حکمران کیلئے ایک سبق ہے کہ طاقت صرف اللہ کے پاس ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ کاش یہ بات پورا حکمران طبقہ اچھی طرح سمجھ لے۔