نازک اور خوفزدہ حسینہ کا خوفناک کھیل

 اگرچہ بنگلہ دیش کی کرکٹ بورڈ نے عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے بعد یہ خبرغلط قرار دیتے ہوئے آئی سی سی کو یقین دلادیا ہے کہ بی سی بی نے شائقین کرکٹ کے حق پسندیدگی پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی جس کے تحت شائقین اپنے پسندیدہ ملک کا پرچم تھام کر سٹیڈیم میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنے اتالیق اور سرپرست بھارت کے زیر تربیت اور زیر سایہ رہنے والی حسینہ واجد حکومت نے اپنے پچھلی مدت حکومت میں جو اسلوب حکمرانی متعارف کرایا ہے اس کے بعد ایسا کوئی بھی اقدام اس نازک اور خوفزدہ حسینہ حکومت سے بعید نہیں ہے۔ دسمبر 1971 میں بھارتی فوج کی مدد سے آزاد ہونے والے ملک کی حسینہ حکومت تقریبا چالیس سال بعد بھی خود کا شاخ نازک کا آشیانہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ پرایوں کے احسانات تلے دبی یہ حکومت ابھی تک اس خوف میں مبتلا ہے کہ اب گئی کہ اب گئی۔ یہ خوف حقیقی بنیادوں پر حسینہ کا اپنا اثاثہ ہے یا اس کے مہربان بھارت کی دین ہے کہ اگر بنگلہ دیشی حکومت اس خوف سے نجات پا گئی تو کل کلاں بھارت کیلئے چودھراہٹ اور سرپرستی کے ساتھ ساتھ اپنے اڑوس پڑوس میں لگائی بجھائی کرنے کا موقع کیسے میسر رہے گا۔ بلاشبہ بھارت کو یہ اندیشہ بھی کھائے جاتا ہو گا کہ اگر بنگال کے شیر جاگ اٹھے تو بھارتی پالتو بلی یعنی حسینہ حکومت کا مستقبل کیا ہو گا۔ جو در حقیقت بنگالی عوام پر بھارتی رعب داب قائم رکھنے کا ایک اہم راستہ ہے۔ اسی خوف کی پرورش کرنے کیلیے بھارت نے تقریبا 42 سال گذرنے کے بعد سہ ملکی معاہدے کے علی الرغم نام نام نہاد جنگی جرائم کا بدنام زمانہ ٹریبیونل قائم کرنے پراسے اکسایا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔ تا آنکہ حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش میں انصاف کی بدترین شکل بنا کربھارت اور اپنے خوف کے مشترکہ اثاثے کا اظہار کیا، بنگلہ دیشی عدلیہ کو اپنے خوف کی دلدل میں گھسیٹ لیا اور بنگلہ دیشی سپریم کورٹ سے وہ فیصلہ لے لیا جوآرڈر پر ''فراہمی انصاف'' کیلئے قائم کئے گئے نام نہاد جنگی جرائم سے ڈیل کرنے والے نو ساختہ ٹربیونل کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ حسینہ واجد نے پہلے ملک کی عدلیہ کو بھی اپنی طرح سیاسی اور انتقامی بخار میں مبتلا کیا۔ اسی وجہ سے بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے مقام اور مرتبے سے فرو تر فیصلہ دے کے پاکستان کے حامی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کو ایک ایسے کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی، جس میں ٹرائل کورٹ نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ لیکن بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے عالمی سطح پر متنازعہ ترین ٹربیونل سے بھی خود کو چار ہاتھ آگے ثابت کرنے کیلئے حسینہ واجد کی مکروہ اور خونخواری کی حامل آشائوں کو پورا کرنے کیلئے اپنے کندھے فراہم کر دئیے۔ یوں بنگلہ سپریم کورٹ نے پاکستان اور اسلام کے شیدائی عبدالقادر ملا کو سزائے موت دیدی۔ درویش صفت، محب پاکستان اور شیدائی اسلام نے مسکرا تے ہوئے پھانسی کا پھندا قبول کر لیا کہ وہ حسینہ حکومت کی طرح خوفزدگی کا شکار تھا نہ کسی اور عالمی نوعیت کی زدگی کی پیداوار تھا۔ وہ مرد قلندر پھانسی پر جھول جانے پر بھی شاداں و فرحاں اور مطمئن رہا جبکہ خونی آشاوں کو پورا کرنے کی خاطر قانون و انصاف اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے کیلیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حدود کو کراس کر جانے والی حسینہ واجد اور اس کی حکومت اس قدر خوفزدہ تھی کہ اسے عبدالقادر ملا کی لاش راتوں رات ٹھکانے لگانے کا اہتمام کرنا پڑا۔ میت کی ساڑھے تین بجے رات تک تدفین سخت ترین سکیورٹی کی موجودگی میں ایسے ماحول میں کی گئی کہ گائوں کے لوگوں کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ گویا حسینہ کے دل کا چور رات کے پچھلے پہر تک سرگرم رہا۔ حسینہ حکومت کا یہ خوف اس کے باوجود جاری رہا کہ اس نے مخالفین کے لیے قیدوبند اور کال کوٹھڑیوں کا پکا انتظام کر رکھا تھا۔ اس خوف کا اگلا اظہار اس وقت سامنے آیا جب بنگلہ دیش میں انتخابات کا مرحلہ آیا۔ حسینہ حکومت کی جعلسازیوں اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف تمام اہم جماعتوں نے بائیکاٹ کیا لیکن اس کے باوجود حسینہ کا خوف جاری رہا اور اس نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت پکی کرنے کیلیے 300 نشستوں میں سے 154 نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدواروں کی جیت یقینی بنانے کیلیے ناجائز حربے استعمال کئے۔ رگوں میں دوڑنے والے اسی خوف کا نتیجہ ہے سیاست اور پارلیمان کی سطح پر ہی نہیں کرکٹ کے میدان میں بھی حسینہ خوفزدہ ہے۔ اس لئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم دیکھ کر کانپ کانپ جاتی ہے۔ اسی کا توڑ کرنے کیلئے بنگلہ کرکٹ بورڈ سے اعلان کرایا کہ شائقین صرف اپنے پسندیدہ ملک کا پرچم لے کر نہیں جائیں گے۔ خوف کیوں ہو98 فیصد بنگالی نوجوان شاہد آفریدی کو پسند کرتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے میدان میں اترنے پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، اور پاکستان کی جیت پر جھوم جھوم جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے ملک کا پرچم تھامنے سے حسینہ لرزجاتی ہے۔ لیکن اسے جگ ہنسائی کا اثر کہئے یا اس خوف کا نتیجہ کہ کہیں نومولود بنگلہ کرکٹ کو آئی سی سی کسی مشکل سے نہ دوچار کر دے۔ اس لیے آئی سی سی کی طرف سے جواب طلب کرنے پر بی سی بی الٹے پائوں پھر گیا ہے۔ حسینہ خوف تمہیں مبارک ہو۔ لیکن لبرل ایجنڈے کے حلقہ بگوش اسے کیا کہیں گے سیکولر بھارت اور اس کی حاشیہ بردار حسینہ کھیل کے میدان میں بھی تنگ نظری اور انتہا پسندی کا کھیل کیوں کھیلنا پسند کرتی ہے؟ کیا یہی رواداری اور برداشت ہے جو مذہب بیزاروں کے ہاں پنپتی اور جھلکتی ہے؟

ای پیپر دی نیشن