لاہور (جواد آر اعوان / دی نیشن رپورٹ) طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کی طرف سے طالبان کے شدت پسند قیدیوں کی رہائی کے غیررسمی مطالبے نے سکیورٹی اداروں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے گذشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا غیرعسکری قیدیوں کی رہائی اعتماد سازی کے لئے ہے جبکہ طالبان کے وہ قیدی جنہیں مختلف کلین چٹ مل چکی ہے ان کو بھی رہا ہونا چاہئے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے دی نیشن کے نمائندے کو بتایا کہ عسکری حکام جو غیرعسکری قیدیوں کی فہرست پر غور کر رہے ہیں کو پروفیسر ابراہیم کی طرف سے جنگجوئوں کی رہائی کے مطالبے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ پروفیسر ابراہیم کے بیان سے عسکری حکام کے طالبان کے ارادوں پر شکوک مزید بڑھ گئے ہیں۔ ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیشن کو بتایا کہ پروفیسر ابراہیم نے اپنے بیان میں طالبان کی غیررسمی شرط سے آگاہ کیا ہے کہ ان کے جنگجو قیدی بھی رہا ہونے چاہئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب حکومت غیرعسکری قیدیوں کی رہائی کے بارے میں غور کر رہی ہے پروفیسر ابراہیم کا یہ بیان غیرمعمولی ہے اس دوران سیاسی اور عسکری حکام کی گذشتہ روز ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ طالبان کے پیس زون کے حوالے سے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اس سلسلے میں ایک غیررسمی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات میں سکیورٹی کے تمام ایشوز پر تبادلہ خیال ہوا جبکہ طالبان کے مطالبات کے حوالے سے انہوں نے کچھ بتانے سے گریز کیا۔