کراچی + گڑھی خدا بخش (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) پاکستان پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آج ملک میں جہالت کے اندھیرے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ آنکھوں والے مذاکرات کے نام پر اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مذاکرات کے نام پر اندھوں سے راستہ پوچھ رہی ہے دہشت گرد ہم سے ہماری شناخت چھیننا چاہتے ہیں۔ طالبان کی آمریت قبول نہیں، قائداعظمؒ کو کافر اعظم کہنے والوں سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں کہ جہاں پر چاروں طرف بے یقینی ہے ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے۔ دہشت گرد ہمارا سکون چھین لینا چاہتے ہیں۔ ہم درندوں کے سامنے نہیں جھکیں گے ہماری اپنی جنگ ختم نہیں ہوئی اور حکومت دوسروں کی جنگ لڑنے جا رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک سوچ، فلسفے اور ایک نظام کا نام تھا۔ نام نہاد منصفوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ وہ گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر بڑے جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، سابق وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیٹر اعتزاز احسن، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اراکین سینٹ، قومی وصوبائی اسمبلی سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماﺅں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج پنجاب کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں اگر ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو یہ حال نہ ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ اس سورج کو بجھا دیا گیا جس کا مقصد ہمیں اندھیروں میں رکھنا تھا۔ ہمیں جہالت کے اندھیروں کی نہیں بلکہ روشنی کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان کو پھر ایک بھٹو کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں نے پہلے بھی دھوکا دیا اور اب بھی دھوکا دیا جارہا ہے لیکن دہشت گرد سن لیں ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ابھی زندہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہر طرف بے یقینی ہے۔ ایک طرف دہشت گرد ہیں جو ہم سے ہماری شناخت پہچان اور ہمارا وجود تک چھین لینا چاہتے ہیں، دوسری طرف ہماری تہذیب اور معیشت دم توڑ رہی ہےں جبکہ سیاست ذاتی مفادات تک محدود ہوچکی ہے۔ ہم نے کونسی غلطی کی ہے کہ تاریخ ہمیں معاف کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہمارے عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور 35 سال پہلے ہم اس سورج سے محروم ہوگئے جو قوم کو روشنی فراہم کررہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پکار پر قوم ایک ہو کر جینا چاہتی تھی۔ وہ شہر جہاں اسلحے کا نام نہیں تھا، وہاں گولیوں کی تڑٹراہٹ سنائی دی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب کے دوران کھپے کھپے بھٹو کھپے کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو بے روزگار نوجوانوں کے لئے امید کی کرن تھے۔ بدقسمت ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو تھے تو دنیا کی بڑی طاقت بھی پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں کرتی تھی آج اس ملک کو ایک بار پھر بھٹو کی ضرورت ہے۔ ہمیں جہالت کی نہیں روشنی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت مذاکرات کی رٹ لگاتے نہیں تھکتی۔ دہشت گرد تباہی مچا کر جنت کی حوریں لینا چاہتے ہیں، وہ انہیں نہیں ملیں گی۔ جاگ میرا پنجاب جاگ۔ پاکستان جل رہا ہے، ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کون ہوتے ہیں اسلام سیکھانے والے۔ دہشت گرد درندے ہیں مسلمان نہیں۔ مذاکرات ضرور کریں لیکن ہو گا کیا ؟ انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ میاں صاحب آپ کی پالیسی کیا ہے۔ کبھی آپ ملا محسود کی موت پر آنسو بہاتے ہیں اور کبھی فوج کی شہادت پر تعزیت کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر جہالت کے اس دور میں پھینکا جا رہا ہے، جو اسلام سے پہلے عرب میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس ملک میں ظالمان کا نظام نافذ ہوگیا تو سندھ میں زندہ بیٹیاں دفن ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کے دفناتے وقت پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا جبکہ دھوکے کا اس سے پوچھیں جو فوجی بیٹے کو دفناتے وقت پاکستان زندہ باد کہتا ہے۔ لاہور کی جوزف کالونی میں چرچ کو آگ لگادی جاتی ہے اور ایک شخص بھی گرفتار نہیں ہوتا۔ یہ وہی لوگ تھے جو پاکستان کی مخالفت کرتے تھے اور یہ لوگ قائد اعظمؒ کو کافر اعظم کہا کرتے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اقلیتوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ کچھ لوگ اسلام کے نام پر اپنی دہشت کا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خبر دار کرتا ہوں کہ جو اپنے صوبے میں دہشت گردوں کو سیاست کے نام پر پناہ دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اسلام نہیں ہے، ۔ بلاول بھٹو زرداری اور اس کے جیالے دہشت گردوں کےخلاف چٹان کی طرح کھڑے ہیں جبکہ کسی دہشت گرد کو اجازت نہیں کہ سندھ میں مذہب و نسل کے نام پر فساد پھیلائے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پر نعشوں کی سیاست کا الزام لگانے والے بچوں کی نعشوں پر سیاست کر رہے ہیں۔ بے گناہ لوگوں کے خون کی قیمت ان چند لوگوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ایسے لوگوں کو خبردار کرتا ہوں کہ یہ وقت سیاست کا نہیں ایک قوم بننے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔ آصف زرداری کو گیارہ سال قید میں رکھ کر عزم چھیننے کوشش کی گئی آصف زرداری کا عزم چھیننے والے اس کی مسکراہٹ بھی نہیں چھین سکتے۔ کچھ لوگوں نے سندھ فیسٹیول کی مخالفت کی تھی جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جنہیں سندھ فیسٹیول کی ترقی پسند نہیں آئی۔ ہمیں اپنی ثقافت اور تحفظ کو اپنا ہتھیار بنانا ہو گا۔ انتہا پسندی کے مائنڈ سیٹ سے لڑنا ہے تو اپنی تہذیب کو ہتھیار بنانا ہو گا۔ آصف علی زرداری نے غیر ملکی دبا¶ میں آئے بغیر گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر آصف زرداری کا گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کردیا جبکہ پاکستان کی قیمت 1.5 ارب ڈالر لگائی جاتی ہے اور قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے سوال کیا کہا کیا یہ قیمت ملک کے جوانوں کے سر کی قیمت ہے۔ حکومت کی نیت صاف تھی تو قوم کو کیوں نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مسئلہ پرائیویٹائزیشن یا نیشنلائزیشن کا نہیں پرسنلائزیشن کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی قوم کو بے روزگاری کے دلدل میں نہیں ڈالنے دینگے۔ پاکستان کے اثاثے غریبوںکا سرمایہ ہے۔ پاکستان کا قرض ادا کرنے کے لےے صوبوں کے حقوق نہیں چھیننے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ اثاثوں میں سے اپنا حصہ مانگیں۔ حکومت اداروں کی نجکاری کی بات کر رہی ہے۔ نجکاری کے نام پر حکومت ہمارا گھر بیچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان میں فرقہ پرستی اور دوسرے مسائل کے لئے تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ چھوٹے صوبوں میں اس وقت تک امن نہیں ہوسکتا جب تک ملک کے سب سے بڑے صوبے میں دہشت گردوں کو پناہ ملنا بند نہیں ہوجاتی۔ بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ ’کس دوست ملک نے ڈیڑھ ارب ڈالر فراہم کیے؟ اگر حکومت کی نیت صاف تھی تو لوگوں سے یہ بات کیوں چھپائی۔‘ ’یہ پیسہ کیوں دیا گیا ہے، یہ کس چیز کی قیمت ہے، کیا یہ ملک کے جوانوں کے سر کی قیمت ہے، کسی ملک کے پراسرار چندے سے ہماری معشیت، ہماری فوج اور حکومت چلائی جاسکتی ہے تو یہ آپ کی سب سے بڑی بھول ہے۔ ہماری فوج کوئی پیشہ ور قاتلوں کی فوج نہیں بلکہ ہماری فوج غیرتمند فوج ہے، ہماری فوج ہمارا سرمایہ ہے کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔ ابھی تک ہماری اپنی جنگ ختم نہیں ہوئی اور آپ اپنے مشیروں کے مشورے پر دوسروں کی جنگ میں چھلانگ لگانے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے مذہبی شدت پسندوں پر تنقید کی اور ایک بار پھر اپنا موقف دہرایا کہ ’شدت پسند لوگوں پر اپنے طرز کا مذہب مسلط کرنا چاہتے ہیں اور وہ ملک میں تباہی مچا کر جنت کی حوریں لینا چاہتے ہیں، انہیں وہ نہیں ملیں گی۔‘ ’میں انہیں بھی متنبہ کرتا ہوں جو اپنے صوبے میں دہشتگردوں کو سیاست کے نام پر پناہ دیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ اس ملک کے چھوٹے صوبوں میں اس وقت تک امن نہیں ہوگا جب تک اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت دہشت گردوں کو پناہ دینا نہیں چھوڑے گی، جاگ پنجاب پاکستان جل رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا دہشتگردو سن لو جب تک شہید بی بی کا بیٹا زندہ ہے اقلیتوں کو تنہا نہ سمجھنا بلاول بھٹو ان کے ساتھ ہے۔ ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے ہماری سیاست ذاتی مفادات کے تحفظ تک محدود ہو چکی ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے ہمارا جرم کیا ہے۔ قوم کا یہ سوال اتنا مشکل نہیں جس کا ہم جواب نہ دے سکیں ہم مانتے ہیں ہمارا یہ بہت بڑا جرم ہے کہ ہم نے تاریخ کے عظیم ترین لیڈر شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا جس کی روشنی میں ہم نے زندگی کا سفر طے کرنا تھا وہ سورج بجھا دیا۔ ہم نے وہ خزانہ گنوا دیا جس کے بل پر دنیا میں جینا تھا۔ بھٹو ایک فلسفہ اور ایک نظام تھا ذوالفقار علی بھٹو ایک سوچ اور نظام کا نام تھا۔ بھٹو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا تھا اس لیے اسے تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ اگر بھٹو زندہ ہوتا تو کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھتا بھٹو نے پاکستانیوں کو ایک قوم بنایا۔ بھٹو نے ایٹم بم بنا کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا بد قسمتی سے بھٹو نہ رہا اور چند جھوٹے ملا پاکستان کی قسمت کے ٹھیکیدار بن گئے بدقسمتی سے آمریت کی گود میں پلنے والے خون کے پیاسے درندے پاکستان کے وارث بن گئے۔
گڑھی خدا بخش (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ نیٹ نیوز) سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ حکومت نجکاری کے نام پر ہمارے گھروں کو بیچنے کی تیاری کررہی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، اس وقت اسلامی دنیا کٹھن موڑ پر ہے‘ ہمیں پاکستان کو بچانے کی سوچ رکھنی چاہئے‘ ملک کو فرقہ واریت سے بچانے کی ضرورت ہے‘ حکومت کو ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا، دنیا پر مصیبت آئی تو پاکستان نے اس کا مقابلہ کیا لیکن خود کو اس میں نہیں ڈالا‘ 35 سال میں پہلی مرتبہ بھٹو کے نواسے نے ہمت کرکے جلسہ عام کے انعقاد کا وقت تبدیل کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں دانشوروں سے سوال کرتا ہوں کہ پاکستان کو کس طرح چلانا چاہئے۔ میں اس کے تمام دوستوں سے بات کروں گا کیونکہ ملک کو فرقہ واریت سے بچانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مسائل سے غافل نہیں رہنا چاہئے اور پاکستان کو بچانے کی سوچ رکھنی چاہئے۔ اس وقت سمجھ میں نہیں آرہا کہ دنیا کس طرف چل نکلی ہے۔ جب بھی امت مسلمہ پر مصیبت آئی تو پاکستان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن خود کو اس میں نہیں ڈالا لیکن آج ایسے ہی حالات ہمارے خطے میں چل رہے ہیں۔ اب اسلامی دنیا ایک کٹھن موڑ پر کھڑی ہے۔ آج ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ حکومت کو ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت کو ہمارے معاہدوں سے توانائی بحران دور کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو مذہبی فسادات سے ملک اور عوام کو بچانا ہوگا۔ شہید کبھی نہیں مرتے یہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ اب پیپلزپارٹی پر بڑا قرض بھی ہے اور امتحان بھی جسے ہم نے چکانا ہے۔ مسلم دنیا پر مصیبت آئی تو پاکستان نے مشکل کا مقابلہ کیا شہید ذوالفقار علی بھٹو سیاسی سائنسدان تھے۔ ہم نے پاکستان بچانے کی سوچ رکھنی ہے ملک کو فرقہ واریت سے بچانے کی ضرورت ہے، آج ہمیں بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ بی بی صاحبہ اور بھٹو صاحب ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کو بچانے کے لئے سب دوستوں سے بات کریں گے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم وہ جمہوریت نہیں چاہتے، جس سے آمریت جنم لے، جن کو پیپلز پارٹی نے روزگار دیا ان کو بے روزگار کیا جا رہا ہے، طالبان نے گیلانی اور تاثیر کے بیٹوں کو نہ چھوڑا تو دما دم مست قلندر کریں گے۔ ہماری جمہوریت کو کمزور نہ سمجھا جائے، ہم وہ جمہوریت نہیں چاہتے جس سے آمریت جنم لے، جن کو پیپلز پارٹی نے روزگار دیا ان کو بے روزگار کیا جا رہا ہے۔ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو کریں، میاں صاحب یہ کون سے ڈائیلاگ ہیں جس میں طالبان کہتے ہیں کہ وہ یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو رہا نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما و سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور غریبوں کو مضبوط کرنے کی بات کی، آج درسگاہوں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے، تین ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی اب آپ کا نام کیا رکھیں، کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کر کے نندی پور میں 18 ارب بنائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور غریبوں کو مضبوط کرنے کی بات کی تھی، اس لئے ہم ان کی قبر پر اپنے درد اور غم لے کر آتے ہیں لیکن آج مسجد، امام بارگاہوں اور گرجا گھروں میں قتل عام ہو رہا ہے، درسگاہوں کو بھی بم سے اڑایا جا رہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں، شہباز شریف نے تین مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو نام بدل دینا، اب میاں صاحب خود ہی بتائیں کہ ان کا نام کیا رکھا جائے، ویسے ہمارے دماغ میں ان کے لئے نام ہے جو دیا تو وہ پریشان ہو جائیں گے، مسلم لیگ ن نے کرپشن ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن نندی پور میں تو 18 ارب بنائے صرف باتیں نہیں اب وعدے پورے کریں۔ رضا ربانی نے بھی خطاب کیا۔ بی بی سی کے مطابق مختصر خطاب میں عوام سے کہا کہ ہمیں پاکستان کی سوچ رکھنی ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پارٹی کی مجلس عاملہ نے اجازت دی ہے کہ وہ تمام سیاسی قوتوں سے بات کریں اور دیکھیں کہ سب مل کر پاکستان کو کس طرح لیکر چل سکتے ہیں۔ اندرونی مسائل جن میں توانائی کا بحران شامل ہے وہ ان کی حکومت نے چین سے مل کر حل کر دیا تھا اب اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔