کنفیوژن یا ذہنی الجھائو کم علمی کی تاریکیوں سے جنم لیتا ہے۔ گاہے منفی سوچ اور سازشی عزائم اسکی پرورش گاہ بنتے ہیں۔ سعودی عرب فوج بھیجے جانے یا نہ بھیجے جانے کے حوالے سے سب سے زیادہ جس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ وہ سعودی عرب اور ایران کے حامیوں کے مابین امکانی تصادم ہے۔ بادی النظر میں اسے نظرانداز کرکے ایک طرف نہیں پھینکا جا سکتا ہے۔ دوسری بات جو اس حوالے سے مسلسل کی جا رہی ہے اور لکھی جا رہی ہے وہ یہ کہ سعودی عرب فوج بھیج کر نوازشریف اپنی جلاوطنی کے دوران سعودی حکمرانوں کی نوازشات کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی وزیراعظم اتنا طاقتور نہیں ہے کہ وہ فوجی قیادت کی مرضی کیخلاف فوج کو ملکی سرحدوں سے باہر بھیج سکے۔ دوسرے فوجی قیادت بھی اتنی غبی یا کودن نہیں ہے کہ کہیں بھی فوج بھیجے جانے کے فوری اور دور رس نتائج اندرون ملک اور بیرون ملک اثرات‘ پڑوسی اور عالمی طاقتوں کے ردعمل کا ادراک نہ رکھتے ہوں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین باقاعدہ دفاعی سٹرٹیجک معاہدہ ہے جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی سلامتی کو لاحق خطرات کی صورت میں دفاعی کردار ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت سعودی شہروں الجیزان اور ابہا میں میجر جنرل کی سربراہی میں ایک ڈویژن فوج دس سال تک وہاں تعینات رہی۔ یمنی باغیوں کی جانب سے خانہ کعبہ پر قبضہ کے واقعہ پر بھی اس معاہدے کے تحت فوج بھیجی گئی۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں ملکوں کی افواج مشترکہ جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں اور خلیج عدن میں حالیہ بحری مشقیں بھی اس تسلسل کا حصہ ہیں۔ چند ماہ قبل سعودی عرب کی افواج نے بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کیں جس میں پوری دنیا میں سے صرف پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خصوصی مہمان کے طورپر شرکت کی تھی اس لئے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہئے کہ نوازشرف ’’احسان‘‘ کا بدلہ نہیں چکا رہے بلکہ یہ سلسلہ تب سے جاری ہے جب نوازشریف وادی ٔ سیاست کے کوچہ گرد بھی نہیں تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ مل کر بھی‘ البتہ سعودی عرب کی سلامتی خطرہ میں پڑی تو پاکستانی فوج دفاعی کردار ضرور ادا کر گی۔
موجودہ صورتحال میں یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کا کردار کئی پہلو رکھتا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک ’’کونسل آف فارن ریلیشن‘‘ کے مطابق 1980ء کے عشرے میں یمنی مجاہدین کی جہاد افغانستان سے واپسی کے بعد علی عبداللہ صالح نے انہیں جنوبی یمن کی روس نواز حکومت کیخلاف کھڑا کر دیا اور 1990ء سے 1994ء تک خانہ جنگی کے دروان انہیں جنوبی یمن میں علیحدگی پسندوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا گیا جسکے بعد جنوبی اور شمالی یمن متحد ہوئے تو علی عبداللہ صالح نے متحدہ یمن کی صدارت سنبھال لی۔ یمنی مجاہدین کے سعودی القاعدہ سے الحاق کے بعد یمنی القاعدہ نے وجود میں آکر عدن کی بندرگاہ پر موجود امریکی بحری جہاز پر حملہ کیا جس میں 17 امریکی ہلاک ہوئے تب یمنی القاعدہ کی صدر صالح کی امریکیوں سے مفادات حاصل کرنے کیلئے خود القاعدہ کیخلاف کارروائی روک دی اور یمنی فوج کی تربیت کے نام پر امریکہ سے بھاری رقوم ہتھیائیں۔ کہاجاتا ہے جو غیرملکی بینکوں میں محفوظ کر دی گئیں۔ پھر پینترا بدلا اور یمنی القاعدہ پر امریکہ کو ڈرون حملے کرنے کی سہولت بھی دی گئی جسکے نتیجے میں 2003ء میں ان کا خاتمہ ہو گیا۔ بڑی تعداد میں گرفتار ہوکر نذر زنداں ہوئے بعدازاں اپنے مقاصد کیلئے ان گرفتار شدگان کو صنعا جیل سے فرار کا موقع فراہم کرکے دوبارہ یمنی القاعدہ کھڑی کر دی گئی اور دیگر گروپ انصار الشریعہ‘ الحراک تحریک‘ قبائلی گروہ اور حوثی ایک دوسرے سے آمادہ پیکار ہو گئے۔ خانہ جنگی نے بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا بالآخر منصور ہادی کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو گئی‘ لیکن کچھ عرصہ بعد حوثیوں نے بغاوت کر دی۔ قطر کے وزیردفاع جنرل حماد بن علی نے دعویٰ کیا ہے مسلسل پیشکشوںکے باوجود ایرانی دبائو پر حوثیوں نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ ادھر علی عبداللہ صالح حوثیوں سے مل گیا اور یمنی فوج میں اس کے زیراثر حصہ نے بھی حوثیوں کی حمایت میں لڑنا شروع کر دیا۔ صدر منصور ہادی کی درخواست پر سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے بشمول مصر یمن میں بغاوت کیخلاف مشترکہ فوجی قوت کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ موجودہ صورتحال سے ایک مخصوص خطے کی حالت تو نازک ہوگئی‘ پاکستان کو بھی نازک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ عمومی طورپر کہا جا رہا ہے سعودی عرب فوج بھیجنے پر ملک میں ایران نواز طبقے کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑیگا اور اس مرحلہ پر سعودی عرب سے لاتعلقی اختیار کی جائے تو سٹرٹیجک معاہدہ ایک طرف‘ سعودی عرب میں کام کرنیوالے پندرہ لاکھ پاکستانی اگر وطن واپس بھیج دیئے جائیں‘ اسی طرح کویت‘ قطر‘ شارجہ‘ بحرین‘ ابوظہبی‘ دبئی سے بھی انہیں دیس نکالا مل جائے تو کیا پاکستان ان لاکھوں افراد کا بوجھ برداشت کر سکے گا۔ ان لاکھوں پاکستانیوں میں صرف اہلحدیث یا دیوبندی نہیں جنہیں سعودی عرب نواز سمجھا جاتا ہے بلکہ ان میں بریلوی اور شیعہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ایک اور خطرناک پہلو یہی ہے کہ عراقی ملیشیا امن بریگیڈ اورکتائب سید الشہداء کے بہت سے جنگجو بھی یمن پہنچ رہے ہیں۔ میگزین ڈیفنس رپورٹر کے نمائندے سونی جونز سے گفتگو میں جنگجو کمانڈر ابو کمیل اور ابو احمد نے کہا ’’ہم یمنی حوثیوں کے شانہ بشانہ سعودی اور خلیجی افواج سے لڑیں گے۔‘‘ امریکی تھنک ٹینک ’’سٹریٹ فار‘‘ کایہ تجزیہ بھی غور طلب ہے کہ یمن تقسیم ہوا تو حوثی شمالی یمن کے صوبے ’’مآرب‘‘ سے دستبردار نہیں ہونگے جو تیل اور گیس سے مالا مال ہے۔ اس صورت مں شمالی یمن خالی ہاتھ رہ جائیگا۔ ان حالات میں پاکستان کی پوزیشن تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے اس لئے تدبیر کو بروئے کار لایا جائے۔ پوری امت مسلمہ حضور نبی کریمؐ کی اس دعا کو عملی صورت دینے کی جدوجہد کریں۔
’’الھم بارک لنافی شامنا ویمنناً‘‘ اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ امن و استحکام سے بڑھ کر برکت کیا ہو سکتی ہے۔