پہلی جنگ عظیم کے بعد مصر، شام، اردن، عراق، لبنان، سعودی عرب، ایران اور دوسری خلیجی ریاستیں جو کبھی ایک مرکز کے تابع رہیں وہ اپنی اپنی لکیریں کھینچ کر الگ الگ وطن بن گئے ۔ تیونس سے عراق تک کے یہ ممالک اب عربی تہذیب و تمدن اور روایات کے امین ہیں۔ ان ممالک کی اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود عربی النسل ہونے پر فخر کرتی ہے۔مشرق وسطیٰ کے ممالک کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے یہ تو یہ بات صاف نظر آئیگی کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک نظریے کی بجائے سیاسی اور معاشی کنٹرول حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مغربی طاقتوں کے جدید سیکولر تصور نے اس خطے کے وسائل اور ریاست پر اپنا کنٹرول رکھنے کیلئے اسے چھوٹے چھوٹے جغرافیائی حصوں یا ملکوں میں تقسیم کروا دیا ہے۔ مغربی ممالک نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل جیسا ناسور پیدا کر کے ان سب کی توانائی کا رخ اسی طرف موڑ دیا ہے۔ مغربی طاقتوں نے جنگ عظیم اول کے بعد انتہائی کامیابی سے پورے عرب کو علاقائی بنیادوں پر تقسیم کروا دیا۔ اسلامی تعلیمات نے تو عرب اور عجم کا تصور ختم کر دیا تھا لیکن ناعاقبت اندیش مسلم حکمرانوں اور مغربی طاقتوں کے اثرات نے عربی اور عجمی تفریق کو پھر سے قائم کر وا دیا ۔ عرب اور عجم کی تفریق جس نے قبل از اسلام اس خطے کو خونریزی کا مرکز بنائے رکھا۔ اب اسے مسلسل ہوا دی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی اسی صورتحال نے عراق اور شام میں داعش "ISIS" کو جنم دیا۔ یہ القاعدہ کی ترمیم شدہ ایسی شکل ہے جو القاعدہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق داعش میں شامل دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کے جہادیوں کی تعداد 25000 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اورگزشتہ ایک سال کے دوران غیر ملکی عسکریت پسندوں کی تعداد میں71 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کا تجزیہ ہے کہ عراق اور شام میں داعش کی فوجی شکست، دنیا بھر میں متشدد دہشتگردوںکے پھیلائو پر اثرانداز ہو گی۔ یہ تنظیم عملاً مغربی طاقتوں کے مقاصد کے حصول کا ایک ایسا ذریعے ہے جس کا ادراک ملت اسلامیہ کے حکمرانوں کو غالباً نہیں ہے۔مغربی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسے کھیل کا آغاز کر دیا ہے جس سے اس خطے کی امیر ترین اور طاقتور حکومتوں پر بھی لرزہ طاری ہے۔ اس کا سارا دوش محض مغربی طاقتوں کا نہیں دیا جا سکتا۔ عرب حکمرانوں کی اکثریت نے کئی عشروں سے جس طرح کا طرز حکمرانی اختیار کیا۔ اسکی بناء پر مغربی طاقتوں کو یہ کھیل رچانے کا موقعہ ملا۔مشرق وسطیٰ میں تیل کی دولت سے حاصل ہونیوالی رقم کے قلیل حصے کو اگر ملت اسلامیہ کو درپیش خطرات کو روکنے کیلئے وقف کر کے عالم اسلام کا تھینک ٹینک تشکیل دے دیا جاتا تو شاید مشرق وسطیٰ اس آگ کی لپیٹ سے بچ سکتا۔ عربی اور عجمی کی تفریق، سعودی اور ایرانی کی تمیز نے اب ملت اسلامیہ کی امیر ترین سلطنتوں کو اپنی جغرافیائی سالمیت کے بکھرنے کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ مصر اور پاکستان جیسے ممالک جو معاشی اعتبار سے دوسروں کے دست نگر ہیں ان سے دنیا کے یہ امیر ترین حکمران اور سلطنتیںاپنی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت کیلئے فوجی امداد مانگ رہے ہیں۔ یہ بات کس قدر تاسف کی ہے کہ سعودی عرب جیسا امیر ملک کئی عشروں کے دوران کثیر سرمایہ اور دولت ہونے کے باوجود نا قابل تسخیر اور جان نثار فوجی قوت نہ بن سکا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہر اعتبار سے ایک کمزور ترین ملک یمن، سعودی سا لمیت کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ ان سب کا One Liner ایک دانشور کے مطابق یہ ہے کہ اگر کوئی سلطنت خود کو محفوظ، خوشحالی اور پر امن رکھنا چاہتی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کو بھی خوشحال بننے میں معاون ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کریگی تو بدحال اور مفلوک ہمسایہ امیر سلطنت کی تباہی کا ذریعہ بن جائیگا۔ تاریخی تجزیے اور زمینی حقائق کا تقاضہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو محض عرب لیگ کی سوچ رکھنے کی بجائے ملت اسلامیہ کے درد کو محسوس کرنا چاہئیے۔عرب لیگ نا کام ہو چکی ہے۔ او آئی سی کو بھی امیر عرب ممالک نے ابھر نے نہیں دیا۔ اقوام متحدہ پر امریکہ اور مغربی ممالک کا قبضہ ہے۔ ان حالات میں مشرق وسطیٰ کے لیڈر ممالک کو اپنی سوچ اور طرز عمل کی اصلاح کرنا ہو گی۔ورنہ تاریخ اس خطے میں نئے جغرافیے کے فطری عمل کی طرف بڑھ جائیگی۔ یمن ، سعودی عرب تنازعے کو شعیہ سنی یا ایرانی، سعودی تنازعہ بنانے کی بجائے مغربی طاقتوں کے عزائم پر نظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو گفت و شنید کے ذریعے حال کرنے ہی میں ملت اسلامیہ کا بھلا ہے۔یمن اور سعودی عرب تنازعے کی صورتحال نے پاکستانی حکومت اور عوام کو بھی ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ مصر نے تو سعودی عرب سے اربوں ڈالر اور ایک نیا شہر (نیا دارالحکومت) بسانے کا عہد لے لیا ہے۔ پاکستان عرصہ دراز سے افغان جنگ اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ ہماری قومی ضرورت ہے کہ ہم برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی سالمیت کیلئے ہر طرح کی مدد فراہم کریں۔ تاہم نواز شریف حکومت کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ سوچنا ہو گا کہ کہیں عوام یہ تاثر نہ لیں کہ دوران جلا وطنی وہ سات برس تک سعودی عرب کے شاہی مہمان رہے ہیں اس لیے یہ مدد دی جار ہی ہے۔ میاں صاحب کی حب الوطنی اور دین سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے کر کر اجتماعی دانش کی بنیاد پر حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سعودی عرب کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر ہم سعودی عرب کی فوجی مدد کے عوض پاکستان کی توانائی کی ضروریات میں سہولت اور بلوچستان کی ترقی اور سیکورٹی کیلئے ایک پیکج حاصل کر لیں تو یہ قومی نکتہ نگاہ سے ایک اچھا قدم ہو گا اور اس طرح نواز حکومت کو سیاسی تنقید کا بھی کم سامنا کرنا ہو گا۔