میرے اجداد نے سرشار صہبائے حرم ہوکر
دیکھا ا وردکھایا خواب تھا صاحب نظر ہوکر
کہا اوروں سے ہم ہیں خاص امت باغ ہستی میں
مسافر ہیں چلیں گے سوئے منزل ہمسفر ہوکر
عرب سے آئے قاسم اور غزنی سے محمود آئے
جو بویا بیج تھا وہ سامنے ہے اک شجر ہوکر
مجدد پاک کی تحریک کا یہ انمول تحفہ ہے
علامہ اور قائد کی بصیرت کا اثر ہوکر
کھٹگے کا کھٹکتا ہی رہا باطل کے سینوں میں
جہاں میں دین حق کا ترجمان مستمر ہوکر
یہ ایک دن ہی نہیں اسلام کا دستور ہے شاکر
رحمت کی خبر ہوکر نظامی کی نظر ہوکر
(رشید احمد شاکر عوامی روڈ ڈسکہ)