نیروبی (بی بی سی) کینیا میں حکام کے مطابق گیریسا یونیورسٹی کیمپس میں الشباب کے حملے میں ملوث 5 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ داخلی سکیورٹی کی وزارت کے مطابق ان میں کچھ مشکوک افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ہمسایہ ملک صومالیہ فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ کینیا میں گیریسا یونیورسٹی کیمپس میں الشباب کے حملے میں ہلاک ہونے والے 148 افراد کا سوگ منایا جا رہا ہے اور یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر وارننگ کو نظرانداز کیوں کیا گیا۔ ادھر الشباب نے سنیچر کو جاری بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ کینیا کے خلاف ’طویل شدت انگیز جنگ‘ لڑے گا۔ الشباب کا کہنا ہے کہ وہ کینیا کے خلاف یہ کارروائیاں صومالیہ میں افریقی یونین کا ساتھ دینے کی وجہ سے کر رہی ہے۔ کینیا کے اخباروں کا کہنا ہے کہ کسی سکول یا یونیورسٹی پر متوقع حملے کی انٹیلیجنس رپورٹیں تھیں جبکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جب ایسا تھا تو سکیورٹی میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا اور حملے کے وقت وہاں صرف دو ہی گارڈز کیوں تھے؟ اطلاعات کے مطابق وہاں چار افراد زندہ پائے گئے جن میں سے دو افراد مشتبہ ہیں اور انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک تنزانیہ کا شہری ہے جس کا بظاہر یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ کینیا کے وزیر داخلہ این قیصری نے کہا کہ ’تمام لاش کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت طلبہ کی تھی جبکہ ان میں تین پولیس اہلکار اور تین فوجی بھی شامل ہیں۔‘ تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ الشباب جنگجوؤں نے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے۔