ایک اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ میں ایک امیدوار سے سوال ہوا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو کیسا لیڈر دیکھتے ہیں ۔ جواب ملا کہ اس لیڈر کی وجہ سے وہ آج بورڈ کے سامنے بیٹھا ہے ۔ ’’تو گویا آپ پیپلز پارٹی کی طرف مائل ہیں۔‘‘ بورڈ نے سوال کیا ’’سر !میں نے یہ نہیں کہا ۔ میرا تعلق ایک عامیانہ گھرانے سے ہے؟ میری کوئی سفارش نہیں ، میں نے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی اور جہاں اور ہزاروں لوگوں نے محنت کر کے امتحان پاس کیا اور آپ کے سامنے زبانی امتحان میں بیٹھے ہیں میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔‘‘ ’’تو اس میں بھٹو کا کمال کیا ہے ؟ بورڈ نے سوال کیا ۔ ’’جناب والا ! ایک وقت تک مختلف محکموں میں بھرتی اس محکمے کے سربراہ کی اپنی تشکیل کر دہ کمیٹی کے ذریعے کی جاتی تھی اور کوئی جاگیر دار اپنے بھتیجوں ، بھانجھوں کو اس کے پاس لے جاتا اور کہتا کہ جناب آپ کا بھتیجا تعلیم حاصل کر نے کے بعد فارغ پھر رہا ہے اسے کہیں اڑاچھوڑیں جس پر موصوف گھنٹی بجاتے اور ماتحت عملہ کواُسے کو فوراً بھرتی کرنے کا حکم صادر فرما دیتے اور اسکی بطور انسپکٹر، تحصیلدار یا دیگر انتظامی افسر تعیناتی کی چٹھی جاری ہوجا تی جبکہ عام انسان کے لیے ایسی تعیناتیاں خواب بن کر رہ جائیں ۔ ‘‘ جنٹلمین اس میں بھٹو کا کیا کمال ہے ؟ بورڈ نے پھر استفسار کیا۔ ’’سر! بھٹو نے پبلک سروس کمیشن بنائے جس سے تعیناتی کا صوابدیدی اختیار ایک واحد افسر کی بجائے آپ جیسے کئی افسر ان پر مشتمل کمیشن کو سونپ دیا گیا۔ ہر خاص و عام کے لیے مساوی کورس پر مشتمل مقابلے کے امتحان کا انعقاد شروع ہوا جس میں ہم جیسے غریب ، غربا بھی محنت کر کے بغیر کسی سفارش کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں اورکوئی بااثر امید وار قابلیت نہ رکھنے پر دوڑ سے باہر بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘ امیدوار نے مزید کہا کہ ’’ ویسے اس وقت جب میں آپ کے سامنے انٹرویو دے رہا ہوں حکومت کسی اور سیاسی جماعت کی ہے لیکن نظام بھٹو کا چل رہا ہے اور مجھے آج احساس ہو تا ہے کہ لوگ بھٹو پر کیوں مرتے تھے ۔ ‘‘
بھٹو نے ایک رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور عوام نے اس رومال کی ہزاروں روپے بولی لگا کر اسے حاصل کرنے پر فخر محسوس کیا۔ اپنا کوٹ لہراتے ہوئے عوام میں یوں پھینک دیا کہ اپنائیت ہر ُسو پھیل گئی ۔ فن خطابت ایسا کہ دل کے حقیقی جذبات امڈ کر باہر آجاتے۔ جارحانہ اور انقلابی اتنے کہ ایوب کی حکمت عملی کے بر عکس چین کی بھارت کے خلاف کاروائی میں بھرپور شرکت کا جذبہ رکھتے اورچین کی پیشکش پر باقی ماندہ کشمیر کو آزاد کر وانے کی تمنا رکھتے، معاہدہ تاشقند کے خلاف با آواز بلند احتجاج کرتے نئی پارٹی بنا ڈالتے۔
بھارتی ایٹمی تجربہ کیخلاف ’’گھاس‘‘ کھا کر بھی اپنا ایٹم بم بناتے ہوئے بھارتی ایٹمی بلیک میلنگ سے نجات دلانے کے لیے قوم کو تیار کرتے اور امریکہ جیسی قوت کیخلاف روس، غیر جانبدار ممالک کی تحریک اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور اقوام متحدہ میں ملک و قوم کیخلاف لیٹر پھاڑتے کئی کمزور عالمی سربراہوں کو ہمت عطاکر تے اور ڈنکا بجتاکہ پاکستان کے پاس مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی قیادت موجود ہے ۔ یہی وطیرہ بے نظیر بھٹو شہید میں بھی نظر آیا۔ راوی کہتا ہے کہ پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران بے نظیر بھٹو امریکہ کے دورہ پر گئیں اور اس وقت کے امریکی صدر جارج بش اول نے انہیں اپنی تقریر میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ا نہیں خدشہ ہے کہ وہ اس طرح انگریزی زبان اور دلائل پر عبور نہیں رکھتے جس کا اظہار بے نظیر بھٹو نے ان سے پہلے اپنے خطاب میںکیا ہے۔
جاگیر دار ہوتے ہوئے جاگیرداروں سے لاکھوں ایکڑ ز زمین واپس لے کر محروم غریب کسانوں کو عطا کی۔ لیبر قوانین اور عدالتیں بنوائیں تاکہ مزدور کو کھڑے کھڑے فارغ نہ کیا جا سکے، ان کی پنشن مقرر کروائی اور مینجمنٹ کمیٹیوں کا حصہ بنایا۔ ایوب کے سرمایہ داری نظام کے برعکس اسلامک سو شلزم کے ذریعے منصوبوں کو قومی تحویل میں لیتے اور امیراور غریب کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی تاہم غلطی یہ ہوئی کہ ہم قوم کو ایسے اقدامات کے لیے تیار نہ کر سکے اور نہ ہم بحیثیت قوم ذمے داری کا ثبوت دیتے پاکستان سٹیل اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسے منصوبوں سے مستفید ہو سکے ۔
ہمارے دوست اور فرزند ِ مولانا ابو اعلیٰ مودودی جناب حیدر فاروق مودودی بتلاتے ہیں کہ بھٹو صاحب بذات خود آ پ کے گھر تشریف لائے اور پاکستان قومی اتحاد کیساتھ معاہدے کے ذریعے ایک قومی حکومت کی تشکیل اور نئے انتخابات کے لیے تیار تھے، لیکن کسی کو یہ ہرگز قبول نہ تھا۔ شاید ایٹمی ہتھیاروں سے واپسی کا ہنری کسنجر کو انکار انہیں بہت مہنگا پڑا کہ ڈیتھ سیل سے اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو لکھا کہ وہ اللہ کے حضور پورے اطمینان کے ساتھ پیش ہو نگے کہ وہ بے قصور تھے ۔ یہاں خاکسار کسی تنازعہ اور اصولی اختلاف سے بالائے طاق سوچتاہے کہ کاش بھٹو صاحب نے مجیب کو حکومت دے دی ہوتی ۔ کاش !مجیب بھٹو کی مشترکہ حکومت کی پیش کش کوتسلیم کر ہی لیتے۔ نہ مجیب علیحدہ ملک حاصل کر تے نہ بھٹو ۔ نہ ہم مجیب جیسے لیڈر سے محروم ہو تے اور نہ ہی بھٹو جیسے عظیم قائد سے ۔ شاید ہمیں ایسے ہی زیرک سربراہان کی ضرورت تھی جو اپنی سیاسی مہارت اور دائو بیچ سے ملک کو مغرب سے آزاد نہ خارجہ اور معاشی پالیسیوں کی بدولت ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ۔ آج بھی غریب عوام بھٹو کی سوچ اور ویژن کی دیوانی ہے اورقوم کی ترقی کے لئے اپنے پائو ں کے چھالوں کی پیپ سے چمن کے کانٹوں کی پیاس بجھانے کے لئے تیار ہے تاکہ گلشن میں بہار آئے۔
آدیکھ آبلہ پا کو …
Apr 05, 2016