ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم نے فانی دنیا کو اپنے لئے جاودانی بنانے میں کون سے فارمولے استعمال کیے ہیں، انہوں نے مصائب و آلام کے پہاڑوں کو اپنے قوت عمل و کردار سے ریزہ ریزہ کیسے کر دیا۔ آج ایک پورا زمانہ ان کی زندگی کی کامرانیوں سے انگشت بدنداں ہے۔ انہوں نے خون جگر صرف کیا تو بہار آئی اور ان کے صحن گلشن میں کلیاں، پھول دبستان کھل اٹھے اور آج ان کی یادوں کے چراغوں کی لَو ہمارے دلوں میں عزم و ہمت کی قندیلیں روشن رکھے ہوئے ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اور زور و زر صبر و استقامت میں پنہاں ہے، ان کی خامشی ایوانوں میں لرزش خفی پیدا کر دیتی تھی اور جب وہ بولتے تو بڑے بڑے آمروں کے سینوں میں دل ڈولتے تھے، گورنر امیر محمد خان سے لے کر ایوبی آمریت کی کتنی ہی گراں باریاں آپ کے ناتواں کندھوں نے برداشت کیں اور آپ کے ثبات قدم اور ثبات قلم میں کہیں لرزش پیدا نہ ہوئی بلکہ آپ کا ہر نیا دن ان کی کامرانیوں کا نیا آفتاب طلوع ہوتا چلا گیا۔ ان کی فکری رہنمائی کے عقب میں یگانہ روزگار دو بڑی ہستیوں کے افکار و نظریات کی چاندنی موجود تھی۔ جن کو وہ عمر بھر اپنے سینے سے لگائے رہے اور آخری دم تک قائد کے فرمودات سے سرموانحراف نہ برتا۔ ہندو بنیے کی ذہنیت کے جتنے مجید نظامی آشنا تھے شاید ہی کوئی اور دانشور اس حقیقت سے شناسا ہو۔ ہر دور کے طالع آزمائوں سے وہ نبردآزما رہے اور قائد و اقبال کے فرمودات پر کاربند رہے، میں نے انہیں اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا ہے اور ان کی خامشی میں لذتِ گفتار موجود تھی چہرے کے تیور بتا دیتے تھے کہ وہ صورت حال کی ناگواری کو خوش گواری میں بدلنے کی ذہنی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ وہ آنے والے حادثات اور واقعات کی سنگینی کا قبل از وقت ادراک کر لیتے تھے۔ بقول علامہ اقبالؒ …؎
حادثہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
اس کا عکس مرے آئینہ ادراک میں ہے
انہیں پاکستان کی صدارتی مسند پر بیٹھنے کی بھی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے صدارت کی بجائے صحافت کی آبرو میں اضافہ کیا۔ یہ بات چراغ حق کی طرح روشن ہے کہ 2002ء میں وزیراعظم میاں نواز شریف اٹل بہاری واجپائی کو ایوان اقبال میں استقبالیہ دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ان دنوں ایوان اقبال بورڈ کے چیئرمین مجید نظامی تھے۔ انہیں جب اس بات کا علم ہوا کہ واجپائی کی چار پائی ایوان اقبال میں آ رہی ہے اور اس کو استقبالیہ دینے کے لئے حکومت پاکستان ایوان اقبال کے سربراہ کو میزبان بنا رہی ہے تو غیرت ملی کے پیکر، جرأت رندانہ کے علمبردار مجید نظامی نے میاں شہباز شریف کو اپنے گھر سے فون کیا مگر وہ دستیاب نہ ہو سکے کیونکہ وہ واجپائی کے لئے استقبالی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ میاں شہباز شریف سے مجید نظامی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ میرا پیغام نواز شریف کو دے دیں اگر آپ واجپائی کو ایوان اقبال میں استقبالیہ دیں گے تو مجھے ایوان اقبال اتھارٹی سے الگ تصور کیا جائے۔ میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کو آبروئے صحافت مجید نظامی کا پیغام من وعن دے دیا تو واجپائی کا استقبالیہ منسوخ کرنا پڑا۔ یہ دونوں میاں برادران کی سعادت مندی بھی ہے اور ان کی کامرانی کا راز بھی۔ مجید نظامی اصولوں پر ڈٹ جانے والے تھے۔ ان کے اصولوں میں ضد نہیں قومی وقار اور ملکی سالمیت غالب ہوتی تھی۔ اپنی ذات کی نفی اور قومی معاملات کو اجاگر کرنے میں آپ نے خون جگر صرف کیا ۔ بقول حسرت موہانی …؎
ہم نے خیرات میں یہ پھول نہیں پائے ہیں
خونِ دل صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے
٭…٭…٭