پاناما کیس.... سب کو فیصلے کا انتظار

پاناما کیس کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اس کا فیصلہ وسط اپریل میں آئے گا۔ ہمارے محترم جج صاحبان الگ الگ نوٹ تحریر فرما رہے ہیں۔ اس کیس میں مولا جٹ اور نوری نت کی طرح دو پارٹیاں تو بہت نمایاں ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے نمائندوں اور ترجمانوں نے سپریم کورٹ کے باہر آ کر اپنی اپنی آستینیں چڑھا کر جس طرح کیس لڑا‘ ایسے لگتا تھا کہ کیس عدالت کے اندر نہیں، باہر لڑا جا رہا ہے۔ عدالت کے اندر تو پارٹیوں کو قانون اور تمیز کے دائرے میں رہنا پڑتا تھا لیکن عدالت کے باہر فریقین ایک دوسرے کے کوٹ، قمیض، پاجامے اور بنیانیں خوب دھوتے تھے۔ یہ کیس اندر کم اور باہر زیادہ لڑا گیا ہے۔ فریقین کے نمائندے اپنی پارٹی کو آب زم زم سے دھلا ہوا کہتے تھے اور دوسری پارٹی پر چھپڑ کا کیچڑ اچھالتے تھے۔ عام لوگوں نے کہا کہ یہ کہانی پاکستان کے چہرے کو اجالنے کیلئے نہایت جان دار ہے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔ یہ کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے کہ اس نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور یہ کیس پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں لگ گیا ہے۔ عمران خان نے بڑے مقصد اور جذبے کے تحت یہ کیس اٹھایا لیکن فریقین پر فیصلے سے قبل ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے کا جذبہ غالب رہا۔ ہمارے ہاں نواز شریف صاحب پر پاناما کیس کے الزام لگنے ہی سے ملک میں پائی جانے والی کرپشن کا پہلی مرتبہ سراغ نہیں ملا۔ کسی صحافی نے ہمارے ملک میں پائی جانے والی کرپشن کی خبر دی اور ہم ایک دوسرے پر نفرت کے اوزار اور ہتھیار لے کر چڑھ دوڑے۔ کسی نے کہا ہے کہ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ غصہ بھی کسی اور سے مانگتے ہیں غصہ وہ جو خالصتاً اپنا ہو۔ دوسروں کے دلائے ہوئے غصے کے بارے میں سمجھ دار لوگ فرماتے ہیں۔ فلاں استعمال کر گیا۔ فلاں استعمال کر گیا۔ اپنی شخصیت کے اسٹیرنگ پر خود بیٹھنا چاہئیے۔ پاناما کیس میں قطری شہزادہ بھی مشہور ہو گیا۔ پاناما کیس کی جب تاریخ رقم کی جائے گی تو اس میں جس شخصیت کا نام سرفہرست ہو گا، وہ شیخ رشید کی شخصیت ہو گی۔ ان کے پاس اسمبلی کی ایک کرسی ہے لیکن اس کرسی میں 880 وولٹ کا کرنٹ ہے۔ ایک گانا ہوا کرتا تھا۔ بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں، جو مجھ کو چھوئے گا، وہ جل جائے گا۔ قومی اسمبلی میں ان کا مائک آن نہیں ہوتا اور چینلز پر ان کا مائک کبھی آف نہیں ہوتا۔ وہ خود کو خودکش سیاست دان کہتے ہیں۔ انہوں نے پاناما کیس میں قطری شہزادے کا اس طرح ذکر کیا۔ لال حویلی کے باہر سری پائے کا ناشتہ بیچنے والے سے گاہک نے کہا کہ تھوڑا سا شوربہ دینا تو ریڑھی والے نے جواب دیا۔ ”یہ قطری شہزادے کا مال نہیں ہے“۔ پاناما کیس کے حوالے سے ہمیں امید ہی نہیں تھی کہ ہمارے محترم و مکرم اسلامی سیاست دان جناب سراج الحق صاحب اس میں حصہ لیں گے۔ ہمارے ہاں یہ بھی روایت ہے کہ جس نے کھیل گرمایا ہوتا ہے، اسے ہی گرمانے دیتے ہیں۔ خود دور سے تماشا دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم برے کیوں بنیں۔سراج الحق صاحب تنقید کا کوڑا خوب چلاتے ہیں اور اس کوڑے میں سے ’ساڑ‘، ’ساڑ‘ کی آواز بھی برآمد ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کب سے جدوجہد کر رہی ہے کہ ملک میں اسلامی قانون نافذ کرو، ملک کو اسلامی طریقے سے چلاﺅ، جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، جماعت اسلامی یہی کہ رہی ہے۔ تقویٰ لے لو، پرہیز گاری لے لو، اچھے کام کرو، برائیوں سے بچو، سراج الحق صاحب خود تو نہیں کہتے کہ اگر تقویٰ اور پرہیز گاری کے معیار پر سیاسی پارٹی کو پرکھنا ہے تو ہماری پارٹی کو سب متقی پارٹی کہتے ہیں لیکن یار لوگوں نے تحریک انصاف کے ساتھ صرف انصاف کا لفظ دیکھ کر اسے بڑی اہمیت دے ڈالی ہے۔ اب تو کھلے خزانے تحریک انصاف کو ملک کی دوسری بڑی پارٹی گردانا جاتا ہے۔ کل اگر عمران خان برسر اقتدار آ جاتے ہیں تو لوگ ان سے مطالبہ کر دیں گے کہ آپ داڑھی رکھیں اور عمران خان دفاعی پوزیشن میں آ جائیں گے اور اپنے کلین شیو ہونے کی صفائیاں پیش کرتے رہیں گے۔ اگر اثاثوں کے حوالے سے موازنہ کیا جائے تو سراج الحق صاحب کے پاس ایک ٹوپی، ایک عینک اور ایک واسکٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ بیرون ملک ان کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ کل ہم ایک بچوں کے سکول میں گئے تو چند استانیاں اور آیائیں پانامہ کیس پر تبصرہ کر رہی تھیں۔ ان کی کلاسوں کے بچے آپس میں دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ ہم حیران ہوئے کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، یہ ہماے اینکروں کی طرح کتنی سنجیدگی سے پاناما کیس پر تبصرہ کر رہی ہیں۔
کل ہم ایک چنگ چی پر سوار ہوئے۔ چنگ چی کا ڈرائیور سواریوں کی طرف گردن موڑ کر پاناما کیس پر تبصرہ کر رہا تھا۔ وہ صحافت کی ایسی ایسی اصطلاحات استعمال کر رہا تھا کہ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ ابھی تک کسی جوہر شناس ٹی وی چینل کے مالک کی نظر اس نابغے پر کیوں نہ پڑی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے پاناما کیس کے مبصر یعنی چنگ چی کے ڈرائیور کی گردن ہماری طرف مڑی ہوئی ہے اور چنگ چی کے ہینڈل کا رجحان چھوٹے سے نالے کی طرف ہے، جو سڑک کے ساتھ ساتھ بہہ رہا ہے تو ہم نے وقت سے پہلے چھلانگ لگا دی اور دوڑنا شروع کر دیا دور جا کر ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ پاناما کا مبصر اپنے سامعین یعنی سواریوں سمیت نالے میں الٹ چکا تھا۔ ہم نے بروقت فیصلہ کر کے اپنے آپ کو نالے میں گرنے سے بھی بچا لیا اور دس روپے کرایہ بھی بچا لیا۔ ڈرائیور تو کہہ سکتا تھا کہ میں تمہیں نالے میں گرنے تک لایا تو ہوں، کرایہ دو۔ پاناما کیس کی سماعت مکمل ہونے پر کہا گیا تھا کہ یہ کیس بیس سال تک یاد رکھا جائے گا۔ حال ہی میں ڈاکٹر عاصم، حامد سعید کاظمی اور ایان علی کیسز کے فیصلے آئے ہیں....
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا
یار لوگ کہ رہے ہیں کہ پاناما کیس کا نتیجہ بھی ملا جلا آئے گا۔ یعنی کسی پارٹی کی جیت نہ ہو گی اور کسی پارٹی کی ہار نہ ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن