اپنے عشاق سے اےسے بھی کوئی کرتا ہے

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو آج 38 سال ہونے کو ہیں ان گزرے دنوں کا ایک ایک لمحہ عوام الناس کی اذیت اور کرب کا گواہ ہے۔ 3اور 4اپریل1979کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھایا گےا۔ یوںبھٹو کا نام تاریخ کے باغیوں سقراط،منصوراور سرمدکےساتھ لکھاگےا۔ دراصل مسیحائی کا انجام سولی ہی قرار پاتا ہے اور وقت کے یزید کو للکارنے کےلئے رسم شبیری تو ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ بھٹو نے بزدلی کے لاکھوںدقےقوں پر بہادری کے ایک لمحہ کو فوقیت دی اورغاصب و آمر کے ہاتھوں شہید ہو کر تاریخ میں امر ہونے کا راستہ چنا۔ عوام الناس اُس ایک لمحہ کو بھٹو کی موت سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ اُسے ابدی زندگی کا استعارہ مانتے ہوئے بھٹو کی روح کو اپنے اندر محسوس کرکے کہتے ہیں”میں بھٹو ہوں“ تو قاتل گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گڑھی خدا بخش میں کون دفن ہے؟ تو انھیںبابا بلھے شاہ جواب دیتا ہے کہ ”گور پیا کوئی ہور“ اس کی تصدیق رب العالمین یوں کرتا ہے۔ ”کہ شہید کبھی نہیں مرتا لیکن تم اسکی زندگی کا شعور نہیں رکھتے “ عوام نے اُس لمحہ کے غم کو اپنی طاقت میں تبدیل کر لیا اور وہ جو وارثوں کے بغیر صرف چند لوگوں کے ساتھ بھٹو کی تدفین کرکے سمجھ رہے تھے کہ ”اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔“ وہ اس دور افتا دہ قصبہ میں لاکھوں لوگوں کا میلہ سجا دیکھ کر آج بھی دہل جاتے ہیں کہ جیالے ملک بھر سے جو ق در جوق بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے پہنچتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی بغاوت کی خو اہل حکم کے غیظ و عضب کی بنیاد بنا کیونکہ تاج برطانیہ سے آزادی لینے کے باوجود جمہورکا درجہ رعایا ہی کا تھا۔ فوجی جنتا، صنعتی سرمایہ دار، زرعی جاگیردار، مذہبی اجارہ دار اپنے گٹھ جوڑ کے ذریعہ حاکم بن چکے تھے۔ بھٹو نے پسے اور کچلے ہوئے طبقے میں شعور بیدار کیا کہ بے بسی کی ایسی زندگی تمہارا مقدر نہیں ہے بلکہ تم ہی اصل حاکم ہو ۔بھٹو نے مظلوم طبقات کو متحد کرکے رعایا کو عوام بنا دیا اور پھر اپنی تحریک اور جدوجہد کے ذریعہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قراردیا۔ عام آدمی نے سر اٹھا کر جینے کا انداز سیکھ لیا۔ اور نظام ظلم سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے غصب شدہ حقوق کیلئے بھٹو کی قیادت میں جدوجہد کا آغاز کیا۔
یوں عوام کو حق حاکمیت ملا عام آدمی پہلی دفعہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا عوام کا قائد پہلے صدر اور پھر وزیر اعظم منتخب ہوا۔ پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور ہوا جس میں عوام کے حقوق کا تعین ہوا اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوئے جس سے وفاق مضبوط ہوا۔ اس طرح پہلی دفعہ عوام اور ریاست کے درمیان تعلق قائم ہوا۔ ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اُٹھوائے گئے اور خلق ِ خدا کا راج قائم ہوا جو اہل حکم کے سر اوپر بجلی بن کر کڑکا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پرامن خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کے عزم کو آگے بڑھاتے ہوئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تاکہ خطہ میں جنگ و جدل کا خاتمہ ہو۔ شملہ معاہدہ اور ایٹمی پروگرام پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل ترین امن کے دور کی بنیاد بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین کے ذریعہ عوام کو مضبوط بنایا اور پاکستان کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنایا۔ ایٹمی پروگرام کے ذریعہ ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا کر ریاست کی بیرونی سلامتی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ متفقہ آئین کے ذریعہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے پر ملک کا اصل حکمران طبقہ بھٹو کا دشمن بن گیا اور ایٹمی پروگرام نے عالمی استعمار کو ذوالفقار علی بھٹو کے خون کا پیاسا بنا دیا اور ان دونوں نے مل کر بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ عوام کو جب جب موقع ملا انھوں نے بھٹو وز کومنتخب کرکے ریاست کے امور انکے سپرد کئے۔ ریاست کے سب سے بڑے اور معتبر عہدے پر منتخب ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ میں ریفرنس دائر کیا تاکہ ریاست کے چہرے سے خون کے یہ داغ دھل سکیں۔ کیونکہ بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ ایسا فیصلہ ہے جسے کبھی بھی عدالتی نظیر کے طور پر نہیں مانا گیا اور عوام الناس تو روز اول سے ہی اس فیصلہ کو ماننے سے انکاری رہے۔ مگرنظام انصاف کبھی ٹماٹر کے نرخ اور کبھی شراب کی بوتل پر از خود نوٹس میں مصروف رہا عوام منتظر ہیں کہ©،©©©، خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد،، 1973کا آئین 12اکتوبر 1999اور 5نومبر 2007کو دوسری اور تیسری بار ٹوٹا۔ ڈکٹیٹر مشرف کےخلاف آرٹیکل 6کے تحت کاروائی کا فیصلہ ہوا عدالت نے بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا عزم کیا لیکن پھر حکومت بھی بے بس نظر آنے لگی اور عدلیہ بھی ڈکٹیٹر مشرف کےخلاف کاروائی کرنے سے ریاستی ادارے ہچکچانے لگے اور ڈکٹیٹر مشرف کا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ عوام اور عوامی قیادت کےلئے ایک قانون اور غاصبوں اور آمروں کےلئے دوسرا قانون۔ ریاستی ادارے ذوالفقار علی بھٹو کو صدارتی ریفرنس کے ذریعہ انصاف دینے سے گریزاں ہےںاور ڈکٹیٹر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے لرزاں ہیں۔
جمہوری پاکستان کا بانی اور آئین کا خالق تو ریاستی اداروں کی نظر میں سزاوار ٹھہرا مگرپاکستان کو دہشتگردی کی آماجگاہ بنانے والے اور آئین شکن ریاستی اداروں کی نظر میں بے گناہ قرار پاتے ہیں۔ شہید بھٹو نے دوران مقدمہ جو کچھ کہا اُسکی بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ ”میرا مقام ستاروں پر رقم ہے۔ میرا مقام بندگان خدا کے دلوں میں ہے۔ میں محکوموں اور محنت کشوں کا نمائندہ ہوں اور تم امیروں کی نمائندگی کرتے ہو۔ میں ادارے بنانے پر یقین رکھتا ہوں اور تم انھیں ہتھیانے کے متمنی ہو۔ میں ٹیکنالوجی پر یقین رکھتا ہوں۔ تمہارا ایمان ریاکاری پر ہے۔ میرا دستور پر یقین ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ دستور کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ملا کا مقام مسجد ہے تم اُسے پاکستان کا مالک بنا دینا چاہتے ہو۔ میں خواتین کی آزادی چاہتا ہوں تم انھیں اندھےرے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے سرداری نظام ختم کیا تم اسے بحال کرنا چاہتے ہو۔ میں مشرق پر یقین رکھتا ہوں۔ تم مغرب کے کاسہ لےس ہو۔ جب تم پاکستان کی سلامتی کی بات کرتے ہو تو براہ کرم ہمیں بتا دو کہ تم پاکستان کو غرناطہ بنانا چاہتے ہو یا کربلا،،۔ یہ پھانسی کے اُس لمحہ کا خراج ہی ہے کہ ارض وطن غرناطہ و کربلا کی طرح لہو رنگ ہے۔
عوام تو 38 سال قبل یہ فیصلہ کر چکے کہ وہ کس صف میں ہیں اور یہی آواز ِخلق ہے کہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“۔ ریاستی اداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ انھیںخلق خدا کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا نہیں۔ ریاست کو دوبارہ اپنا تعلق عوام کے ساتھ جوڑنا ہے یا نہیں۔ قائد عوام آج بھی ریاست اور ریاستی اداروں سے سوال کر رہے ہےں کہ اپنے عشاق سے اےسے بھی کوئی کرتا ہے!!!

ای پیپر دی نیشن