سیاست میں یہ بانکپن!

آصف علی زرداری نے سیاسی میدان میں جو ترقی کی اور جس بام کو جا کر چھوا اس پر انکے اندر چھپے ہوئے شرارتی‘ مخولئے اور غیر سنجیدہ بچے یا نوجوان آصف کی حرکات و سکنات اور اقوال و اعمال میں ہرگزفرق نہیں آیا۔ وہ کم بولتے ہیں مگر جب بولتے ہیں تو لگ پتا جاتا ہے۔آصف علی زرداری خوش قسمت ہیں کہ ان کا سیاسی میدان میں مقابلہ اس قبیل کے لوگوں سے ہے جسکے وہ سربراہ یا سرپرست قرار دیئے جاتے ہیں۔ کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تو انکے کسی ایک بچہ جمہورا کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے، چہ جائیکہ یہ دور ایسی ہی سیاست کا ہے۔ کھوکھلے نعروں کا دور‘ گالی گلوچ کا دور‘ لوٹ مار اور چور چور کہنے کا دور۔ الزامات کا دور اور سب سے بڑھ کر بدنصیبی کا دور۔ ملک کی بدنصیبی کہ اس ملک میں بسنے والے بے بس اور بے حس عوام کی بدنصیبی کا دور۔ آج کے حکمرانوں کی کامیابی اور سابقہ حکمرانوں کی کامیابی کا دور‘ لوٹ مار کی پارٹنر شپ کا دور‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کی صدارت کے منصب پر فائز رہنے والا کوئی شخص اپنے ہی ملک کے اداروں کو اپنے غرور و گھمنڈ سے روندنے کی جرأت نہ کرتا۔ یہ زبان تو نہ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچانے والے جنرل ایوب خان نے اپنے بارے میں بولی نہ پاکستان کو دولخت کرنے میں حصہ بقدر حبثہ والے شرابی یحییٰ خان نے بولی۔ نہ ہی کسی بااختیار صدر نے اور نہ ہی کسی بے اختیار صدر نے۔
نیب کے سربراہ کے بارے میں آصف علی زرداری نے بیانگ دہل جب یہ کہا کہ اس بے چارے کی کیا جرأت ہے کہ وہ میرے خلاف کوئی مقدمہ قائم کرے تو میرا خیال تھا کہ اگر کوئی شخص آصف علی زرداری کے ٹکڑوں پر پلا ہو اور اسے حالات کی ستمگری کے تحت ہی سہی‘ نیب کی سربراہی مل جائے تو وہ اس قسم کی ذلت اور توہین پر اگلے روز اپنا استعفیٰ پیش کرکے اپنے محسن کے قدموں میں جا کر بیٹھ جائیگا اور کہے گا کہ حضور والا یہ خادم اپنا قومی فرض ادا کرنے سے عاری تھا اس لئے استعفیٰ دیکر آپکے قدموں میں آگیا ہے اور اس ادارے کی عزت و ناموس کو بچا آیا ہے جس کی طرف پورے پاکستان کے لوگ دیکھ رہے ہیں جس کا کام ہی احتساب ہے جسکی اس قدر اہمیت ہے کہ اسکی سربراہی کیلئے حکومت اور اپوزیشن متفق ہوکر کسی ایسے شخص کی تقرری کی منظوری دیتی ہے جس کی قابلیت اور کردار مثالی ہے جو کسی خوف‘ خدشے‘ دبائو‘ سفارش‘ اقربا پروری‘ پسندوناپسند سے بلند ہوکر اپنا قومی فریضہ ادا کرنے کا اہل ہو۔ آپکے اس اعلان کے بعد میں خود کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتا مگر نیب کے سربراہ نے تو اس پر کسی قسم کا ردعمل بھی نہیں دیا۔
عملاً تو آصف علی زرداری ایک سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے آدھے حصے کے سربراہ ہیں۔ ایک حصہ کی سربراہی انکے بیٹے بلاول کے پاس ہے اور جس حصے کے وہ سربراہ ہیں اس میں فیصلے کرنے کا ان کو اتنا ہی اختیار ہے کہ کسی مروت کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی پارٹی میں لے بھی نہیں سکتے اور اپنی بیٹیوں کی مخالفت پر انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑتا ہے۔ اس سیاسی جماعت کی سندھ میں جہاں حکومت ہے تو حالت وہ بھی اسکے سامنے ہے اور پنجاب میں اسکے جنازے کو کندھا دینے کیلئے جوڑ توڑ کئے جا رہے ہیں۔ اسکے سربراہ کی طرف سے ایک بڑھک پر نیب کے سربراہ سمیت پوری وفاقی حکومت کو سانپ سونگھ گیا۔ ایک وزیرداخلہ چودھری نثار علی کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور اس نقاہت میں بے پناہ تضاد اس آواز کو اور کمزور کر چکا ہے۔
وزیراعظم کے چھوٹے بھائی شہبازشریف کی ڈکشنری کے سارے الفاظ پہلے ہی آصف زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر ساری دولت نکال لینے کی شکل میں لوگوں کے ذہنوں سے ان فلمی بڑھکوں کے اثر کو زائل کر چکے ہیں۔
سابق صدر کس بل بوتے پر یہ بڑھکیں مار رہے ہیں۔ یہ تو شاید وہ خود بھی نہیں جانتے یقیناً انہیں پانچ ارب کی کرپشن کرنیوالے اپنے ایک صوبائی وزیر شرجیل میمن کی وطن واپسی اور سیاسی بڑھکوں میں ان کی تائید کرنے کا موقع اور سہولت میسر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تو کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس پر سابق صدر اپنے ہی ’’محسنوں‘‘ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ میثاق جمہوریت کے یہ محسن انکی ساری کرپشن کو بچانے بلکہ کسی سیف الرحمن کو انکے قدموں میں پڑنے کا حکم ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے تحت دے سکتے ہیں اور اس سودے میں دونوں ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے، بچانے اور اسے محفوظ بنانے میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ کسی نئے سیف الرحمن کو آصف علی زرداری کے قدموں میں ڈالنے کا ڈرامہ رچا سکتے ہیں مگر اداروں کی زبوں حالی اور وہ بھی نیب کی اداروں سے یقین اٹھنے اور اداروں پر لوگوں کے اعتماد کو منوں مٹی تلے دفن کر چکی ہے کہ یہاں سے اسکے گلے سڑے بدبودار وجود کی ہواڑ بھی نہیں آتی۔ یخ بستہ ایسے نظام پر آصف علی زرداری نے اگلے الیکشن کیلئے جو انداز اختیار کیا ہے اس سے تو یہ سمجھ آتی ہے کہ اس نظام کو بچانے کیلئے عزم فولادی ہے اسکے تحت ایک نہیں دس الیکشن کروالیں۔ ہر الیکشن پاکستان کی تباہی و بربادی میں اضافہ کریگا۔ کرپشن کرنیوالوں کا نیٹ ورک زیادہ مضبوط بھی ہو گا اور زیادہ وسیع بھی۔ بے بسی بڑھے گی۔ بے حسی اتنی غالب آجائیگی کہ اس کو ’’گلیاں ہو جاون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ والا مقام و مرتبہ حاصل ہو جائیگا اور بے بس اور بے حس لوگوں کے پاس اس دعا کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اور یہ دعا بھی فی الواقع بہت کم لوگوں کو یاد ہو گی۔
(اے اللہ میرے اوپر اپنی مخلوق میں سے کسی کو ایسی چیز کے ساتھ نہ کر دے جس کی برداشت مجھ میں نہ ہو)۔
بات دعا کی چلی تو آج کا کالم اس لائٹ نوٹ پر جو سابق صدر زرداری نے شیخ رشید کو صدارتی محل میں کھانے کھلانے کا طعنہ دیا اور کہا کہ اس میں نمک کم ہو گا۔ آصف زرداری سے زیادہ کون جانتا ہے جتنا انہوں نے پاکستان کا کھانا کھایا اس میں نمک کم ہی نہیں شاید ڈالا ہی نہیں گیا۔ شیخ رشید کیلئے عربی کا یہ محاورہ یا دعا ،اے اللہ مجھ پر طعنہ موقع نہ دے نہ کسی دشمن کو نہ کسی حاسد کو۔شیخ صاحب یہ دعا پڑھتے رہا کریں۔

ای پیپر دی نیشن