1۔ ظفر محمود صاحب ہمارے دوست ہیں۔ ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ 1979ء میں میں اے سی ننکانہ صاحب تھا۔ ننکانہ کے ساتھ صاحب کی اضافت اس لئے لگی ہوئی ہے کہ یہ شہر بابا گورونانک کی جنم بھومی ہے۔
2۔ میرا تبادلہ فیروز والا ہوا تو ظفر محمود صاحب AC ننکانہ تعینات ہوئے۔ چارج دیتے وقت جو رسمی علیک سلیک ہوئی وہ بتدریج دوستی میں بدل گئی۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ مجھے یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ظفر صاحب انگریزی کے علاوہ اردو زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق سول سروس سے ہے۔ جس کو مرحوم ضمیر جعفری نے سینگوں والی سروس کہا تھا۔ بدقسمتی سے اس سروس کے لوگوں کو قومی زبان سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ جو کدورت، مخاصمت، مخالفت، غیریت اور عدم توجہی ان لوگوں نے اپنی قومی زبان سے روا رکھی وہ ہماری تاریخ کا ایک تکلیف دہ باب ہے۔ اس تاثر کو قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود۔ مصطفے زیدی اور اب ظفر محمود صاحب نے اپنی شگفتہ تحریروں کے ذریعے کافی حد تک کم کیا ہے۔
دوسری وجہ بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ہم دونوں نے ایک طویل عرصہ تک ایک ایسے ڈپٹی کمشنر کو بھگتا جس کی ڈھاک، ڈھمک، چڑ چڑاپن اور ایذا رسانی کے قصے پورے پنجاب میں پھیلے ہوئے تھے۔ مشہور تھا کہ کوئی ماتحت انکے زیر سایہ تین ماہ بھی نہیں گزار سکتا۔ اہلکاروں کے علاوہ انہوں نے عام لوگوں پر بھی ایک سکتہ طاری کر رکھا تھا۔ قصہ مشہور ہوا کہ ایک عورت فیس کریم خریدنے گئی۔ دکان دار نے پوچھا بی بی کون سی کریم چاہئیے؟ بولی کوئی سی بھی ہو، بس فیض کریم نہ ہو۔ میاں فیض کریم پابند صوم و صلاۃ تھے۔ حماقت کی حد تک ایماندار تھے۔ ساری زندگی ناک کی سیدھ میں چلے۔ اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔ چھٹی لیتے تھے نہ کبھی دی۔ درخواست گزار کو ایسی نظروں سے دیکھتے تھے جن نظروں سے تفتیشی افسر مشتبہ کو گھورتا ہے۔ گھر سے دفتر جاتے تو گاڑی میں پٹرول اپنی جیب سے ڈلواتے۔ ڈرائیور کو ایک چونی محنتانہ دیتے۔ ایک مرتبہ انکے بچے مظفر گڑھ سے بس میں بیٹھ کر شیخوپورہ لاری اڈہ پہنچے تو انہوں نے سرکاری گاڑی بھیجنے سے انکار کر دیا۔ وہ ٹانگے میں بیٹھ کر جب ڈی سی ہائوس آئے تو میاں صاحب نے ٹانگہ بان کا اوور لوڈنگ میں چالان کرا دیا۔ یہ کالم میاں صاحب کی شخصیت پر پوری طرح روشنی نہیں ڈال سکتا۔ (میں نے اپنی زیر طبع سوانعمری شاہ داستان میں انکی شخصیت کا بھرپور جائزہ لیا ہے)۔ میاں صاحب کی سخت گیری کی وجہ سے سب اہلکار دوڑ گئے جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار ہم دونوں نے کسی طور انکے ساتھ وقت گزارا۔ اس دلچسپ تجربے نے ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کے قریب کیا بلکہ ظفر صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں میری رہنمائی فرمائی۔
2۔ ظفر صاحب نے دونوں زبانوں میں لکھا ہے۔ گو کم لکھا ہے لیکن پطرس کی طرح خوب لکھا ہے۔ ان کا ناول ’’تیس دن‘‘ جب منصہ شہود پر آیا تو اسے بڑی پذیرائی ملی۔ اہل قلم کو احساس ہوا کہ ان کی صفوں میں ایک ایسا شخص شامل ہو گیا ہے جو گو پیشے کے اعتبار سے بیورو کریٹ ہے لیکن اسکے پائوں دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جو عام آدمی کی طرح اپنے سینے میں گوشت پوست کا بنا ہوا دل رکھتا ہے جو دھڑکتا ہے تو اپنی خوشیوں، غمی اور محرومیوں کا اظہار کرتا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر لکھی ہوئی کتاب جس کا اب اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ واپڈا کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے نعرہ حق بلند کرنا اور تمام وسوسوں کو ذہن کے زندان سے باہر نکالنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جس دن سے انکے آرٹیکل ملک کے سب اخباروں میں بالا قساط چھپنا شروع ہوئے۔ واقف حال اور اہل نظر لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ’’سر آمد روزگارے ایں فقیرے‘‘ ایوان اقتدار میں غلغلہ ہائے الاماں اٹھا ہے۔ آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟ منافقت، مصلحت کوشی اور سازشیں ہماری سیاست کا سکہ رائج الوقت ہیں۔ ایک ایسا قومی منصوبہ جس سے ملک کا مستقبل جڑا ہوا ہے جو بیس کروڑ عوام کی خوشیوں، امیدوں، امنگوں اور آرزئوں کا ضامن ہے محض اس وجہ سے تکمیل نہیں پا سکا کیونکہ اسکے نہ بننے سے ابن الوقتوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں اب کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ کالا باغ ڈیم ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا ’’کارنر سٹون‘‘ بن چکا ہے۔ اسکی خفیہ ایجنسی را کے Sleuth پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ ترغیب، تحریص اور ہتھیلیاں گرم کرنے کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے شروع ہو چکا ہے۔ جس طرح مغرب میں Holo Caust، پر بات کرنا جرم ہے یہ لوگ ہر اس شخص کو مطعون کرتے ہیں جو اس کی افادیت کی بات کرتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ وہی لوگ ہیں جو ملک میں پانی اور بجلی کے نہ ملنے سے شور بھی سب سے زیادہ مچاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایوب خان کے دور سے شروع ہوا۔ وہ اپنی کتاب Friend s not Masters میں لکھتا ہے کہ تربیلا ڈیم بناتے وقت تمام انجینئرز اور آبی ماہرین نے مشورہ دیا کہ ڈیم بنانے کی ابتداء کالا باغ سے شروع کی جائے۔ وہ انہیں جھاڑتے ہوئے بولا No Monkeying وہ دن اور آج کا دن ہر حکمران اپنا راج سنگھاسن بچانے کی فکر میں رہا۔ قومی مفادات کو ذاتی منفعت پر قربان کرتا رہا۔ اگر تربیلا اور بھاشا جیسا مشکل ڈیم بن سکتا ہے تو کالا باغ ڈیم کے بننے میں کیا امر مانع ہے؟ انکے اوپر چاہے دس ڈیم بنا دیں پانی نے تو اپنے مقررہ راستے سے ہی گزرنا ہے۔ 1986ء میں ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھا۔ ابوظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان النہان کو پتہ چلا کہ لاکھوں کیوسک پانی پیاسی دھرتی کو سیراب کئے بغیر سمندر میں جا گرتا ہے تو بڑے حیران ہوئے۔ بولے پانی سونا ہے تم لوگ سونے کو سمندر میں غرق کر رہے ہو۔ یہ مجھے دے دو۔ میں تمہیں اس کے بدلے تیل دونگا۔ ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست کا حکمران تو اس بات کا ادراک رکھتا ہے۔ ہمارے مدار المہام تھوڑی سی جرأت اور اوللعزمی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ ظفر محمود صاحب سے پہلے بھی شمس الملک و دیگر ماہرین نے حق بات کی ہے، انکی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بڑی تفصیل سے نہایت مدبرانہ انداز میں ہر اعتراض کو رد کیا ہے اور ہر بودی دلیل کا توڑ نکالا ہے۔ گو نوکری سے فارغ ہو کر انہیں وقتی طور پر معاشی زک پہنچا ہے لیکن جب اس ملک کی تاریخ لکھی جائیگی جب اسکے آبی وسائل کا ذکر ہو گا تو اس کتاب کا ہر حرف بولے گا پھر ہر باب ایک زریں کتاب ثابت ہو گا۔
3۔ ظفر محمود صاحب نے اپنی تیسری کتاب ’’دائروں کے درمیاں‘‘ جب مجھے مرحمت فرمائی تو خیال تھا کہ شاید جستہ جستہ ہی پڑھ سکوں۔ اسکی دو وجوہ تھیں۔ مجھے علم نہیں تھا کہ موصوف انگریزی کی طرح اردو زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ جو شخص انسانی جذبات، احساسات سمجھتا ہو جسے معاشرتی ناہمواریوں اور ناصبوریوں کا ادراک ہو ضروری نہیں کہ ان کا اظہار بھی موثر الفاظ میں کر سکے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اردو افسانہ زوال پذیر ہے۔ منشی پریم چند نے جس کہانی کی بنیاد رکھی اور کرشن چندر و دیگران نے جس طرح اسے آگے بڑھایا، آجکل کا کہانی نویس اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ نتیجتاً لوگوں نے سفر ناموں کی طرف رجوع کر لیا۔ بالخصوص وہ سفرنامے جن میں افسانوی عنصر موجود ہوتا ہے۔ سفرنامہ نگار جہاں بھی جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر ہزاروں حسینائیں اسکے اردگرد کودتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہیں۔ (جاری)