جب ذوالفقار علی بھٹو شہید پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن کرلاہور آئے تو میری درخواست پر ان سے ایک تفصیلی ملاقات لاہور کے گورنر ہائوس میں ون ٹو ون ہوئی۔ ان دنوں میں پیپلز پارٹی کے لیے علمی، ادبی حلقوں میں سرگرم تھا۔ جناب صفدر میر، نصیر انور اور دوسرے چند معروف ساتھیوں نے مل کر یہ طے کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی نظریاتی تربیت کا اہتمام کیا جائے ہمارا پروگرام یہ تھا کہ لاہور شہر کے 500 یونٹوں میں جو عہدے دار اور کارکن ہیں انہیں سیاسی کارکن کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے، نئی نئی پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی اور اس سے پہلے اسے تنظیم سازی کے لیے بہت کم وقت ملا تھا کہ اچانک پیپلز پارٹی کی قیادت نے عہدے داروں کی نامزدگیوں کا اعلان کر دیا۔ لاہور شہر کی حد تک ہم بہت سارے ایسے لوگوں سے واقف تھے جنہیں نامزد کیا گیا تھا اور وہ قطعاً اس قابل نہ تھے کہ پارٹی کے عہدے دار ہوتے۔ اس مسئلے پر بھٹو صاحب کی توجہ دلانے کے لیے میری ان سے یہ تفصیلی ملاقات ہوئی ساری بات سننے کے بعد بھٹو شہید کا یہ کہنا تھا کہ جن حالات میں پارٹی کو اقتدار ملا ہے اس میں اتنا وقت نہیں تھا کہ پارٹی کے اندر انتخاب کرائے جاتے اگر الیکشن ہوگا تو مخالفین آپ کو کُہنی مار کر ایک طرف کر دیں گے اور خود آگے آ جائیں گے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ پارٹی میں ہر یونٹ کے پاس 30/40 عہدے دار ار کارکن موجود ہیں ان کے درمیان الیکشن ہو جائے تو ایک اچھی روایت پڑسکتی ہے جسے آگے جا کر بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ بھٹو صاحب کا فرمانا تھا کہ جلد ہی پارٹی میں الیکشن کی روایت قائم کی جائے گی آپ فکر نہ کریں لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا ایک کے بعد دوسری نامزدگی ہوتی رہی اور پارٹی میں نامزدگیوں کا رواج آج تک جاری ہے۔ جس کی وجہ سے موروثی سیاست نے جنم لیا۔ آج عوام میں ماضی کی مقبول ترین پارٹی کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ابھی حال ہی میں حلقہ نمبر 120 کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اس کا نمائندہ اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھا۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جو پھر کسی وقت پیش کی جائے گی۔ جنرل مشرف کے دور میں لندن میں بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد کچھ معاملات طے پائے۔ اس معاہدے کا نام ’’میثاق جمہوریت‘‘ رکھا گیا۔ اس معاہدے کے تحت NRO ہوا اور وہ تمام لوگ ملک میں واپس آگئے جن کے خلاف بہت سی انکوائریاں اور مقدمات زیر سماعت تھے یا سزا یافتہ تھے۔ یہ تمام لوگ دودھ میں دُھلے صاف شفاف بن کر پاکستان میں دوبارہ سیاسی میدان میں سرگرم ہوگئے۔ مشرف کو صدارت چھوڑنی پڑی۔ الیکشن کی بھاگ دوڑ میں بے نظیر بھٹو ’’شہید‘‘ ہوگئیں اور آصف علی زردری پارٹی کے ’’سربراہ‘‘ مقرر ہوئے۔ ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی۔ یوسف رضا گیلانی صاحب وزیراعظم بنے اور زرداری صاحب صدر مملکت، اس طرح نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے اپنی معیاد 5 سال پوری کی۔ اس عرصے میں مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے طور پر مدت پوری کرنے میں مدد دی یہ بات کوئی راز نہیں کہ نواز شریف اور زرداری کی ملی بھگت سے ملک میں دو پارٹی سسٹم رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے نام پر دونوں پارٹیاں اس بات پر متفق تھیں سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں ان پارٹیوں کی ہوں گی اور مرکز میں باری باری اقتدار میںرہیں گے۔ 2013ء کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اس پر زرداری صاحب کا کہنا تھا ہمارے علم میں ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر ہوئی ہے لیکن ہم نے انتخاب کے نتائج کو تسلیم کر لیا۔ گویا اب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار زرداری صاحب نے اپنا لیا۔ اس عرصے میں بلاول بھٹو صاحب کو لانچ کیا گیا۔ ملتان کی ایک پریس کانفرنس میں جس میں یوسف رضا گیلانی اور دوسرے سینئر ارکان موجود تھے ۔ بلاول صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ’’ہماری پارٹی موروثی پارٹی ہے‘‘ میں کہتا ہوں کہ ’’ہاں ہماری پارٹی موروثی تھی، موروثی ہے اور موروثی ہی رہے گی‘‘۔ ان کے اس بیان کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ تمام لوگ جو پیپلز پارٹی میں عہدے دار ہیں اور الیکشن میں ٹکٹ ملنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ بلاول کے اس بیان پر محض اس لیے خاموش رہے کہ ان کا عہدہ نامزدگی کی وجہ سے ہے وہ منتخب نہیں ہیں۔ پارٹی کی قیادت سے حق سچ بات کہنے کے لیے عہدے داروں کا منتخب ہونا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن بھی اسی طرح کے عمل سے گزر رہی ہے۔ عمران خان نے چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکمرانوں کی ضد کی وجہ سے یہ مسئلہ دھرنوں تک جا پہنچا نہ تو پارلیمنٹ نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اس کا کوئی حل چاہتی تھی ان کا خیال تھا کہ آنے والے چند ہفتوں میں یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نا ہوا اور عمران خان نے طوفانی دورے اور بڑے بڑے جلسے کرکے پاکستان کے عوام کو متحرک کر دیا۔ اس عرصے میں ’’پانامہ لیکس‘‘ کے انکشافات سامنے آگئے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اسی بوکھلاہٹ میں حکومت نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا کہ وہ یہ مسئلہ حل کروائے لیکن حکومت نے جو TOR سپریم کورٹ کو بھجوائے تھے وہ سپریم کورٹ نے مسترد کر دیئے۔ حتیٰ کہ بات اسلام آباد کے لاک ڈائون تک پہنچ گئی جس پر سابق چیف جسٹس نے سوموٹو لے کر روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کی ابھی سماعت جاری ہی تھی کہ چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ کا وقت آگیا۔ نئے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے سامنے جب یہ مسئلہ آیا تو انہوں نے 5 سینئر ججوں پر مشتمل ایک نیا بنچ بنا دیا جس نے طویل سماعت کے بعد وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر حکومت سے نکال دیا۔
موروثی سیاست کا انجام
Apr 05, 2018