آج پھر ذوالفقار علی بھٹو کی یاد آئی تو میرے ذہن کے دریچوں میں کئی پھول کھل اٹھے۔ ذہن کے نہاں خانوں میں بہت سی روشنیاں در آئیں‘ کیا خورشید جمال شخص تھا‘ امید‘ زندگی اور روشنی اس کے ساتھ ساتھ چلتی تھی‘ وہ گفتگو کرتا تو اس کی آواز میں صدیاں بولا کرتی تھیں۔ مجھے یاد آیا جب ہنری کسنجر کا خط اسے موصول ہوا‘ وہ راولپنڈی صدر بینک روڈ کی نکڑ پر آ نکلا‘ نہ کوئی پروٹوکول‘ نہ سیکورٹی‘ خوب گرجا‘ برسا اور اس خط کو سیکورٹی کونسل میں پولینڈ کی قرارداد کی طرح پھاڑ کر پرزے پرزے کر دیا۔ اس کی ہمہ جہت شخصیت اور ہمہ گیر فکر کا پرتو دیکھنا ہو تو لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجتماعات میں اس کی ہمہ دانی اور کردار کی ست رنگی قوس قزح دیکھیے۔ اس نے پورے عالم اسلام کو سمیٹ کر لاہور کی بادشاہی مسجد میں کہکشاں کی طرح اتار لیا تھا۔ یاسر عرفات‘ کرنل معمر قذافی‘ شاہ فیصل شہید کے ساتھ وہ نماز جمعہ کے اجتماع میں صف آراء یوں لگتا تھا جیسے اسلامی دنیا کی آئندہ صدیاں اس کی مٹھی میں آ گئی ہوں‘ لیکن وہ صدیوں سے عالم اسلام کی تقدیر طے کرنے والے استعمار کی آنکھ کا کانٹا بنا ہوا تھا۔ وہ سامراج جس نے سلطنت عثمانیہ کے شکوہ کو تاراج کر کے اسلامی دنیا کو سپرطاقت بننے سے معذور کر دیا تھا۔ استعمار کے گماشتے بھی اس کے خلاف تھے‘ اس کی اپنی صفوں میں بہت سے میر جعفر اور میر صادق موجود تھے‘ جو اس کے کردار پر انگلیاں اٹھانے سے قاصر ہو کر اس کے چہرے کی تابناکی چھین لینا چاہتے تھے‘ وہ ایک بڑا انسان‘ بڑا لیڈر اور مصلح تھا‘ جو زندہ بھی بڑوں کی طرح رہا اور مر کر امر ہوا تو قوم نے حسب عادت اس کو خراج پیش کیا‘ تیری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک عہد تھا‘ جو بیت گیا‘ اس عظیم لیڈر کی جرات‘ حوصلہ اور ظرف قابل رشک تھا‘ اس نے اپنی سیاسی زندگی میں جس اعتماد کے ساتھ فیصلے کئے‘ آنے والا مؤرخ بھی ان کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ قادیانیت کا بت پاش پاش کر دینا کوئی آسان بات تھی؟ 73ء کے آئین کو جمہوری اور اسلامی شکل دینا کوئی سہل کام تھا؟ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد صحرا میں جوئے شیر لانے کے مترادف تھا‘ لیکن اس مرد جری نے یہ سارے مشکل کام اپنی جہد مسلسل سے کامیابی کے ساتھ کر ڈالے‘ وہ پوری پاکستانی قوم کو استعمار کے مقابلے میں آہنی اور سیسہ پلائی دیوار بنانا چاہتا تھا‘ وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلا جو پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا سفر تھا۔ 73ء کا آئین اس نے جس قومی اتفاق رائے سے بنایا‘ اس کا جواب نہیں‘ ہر چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعت نے اس آئین کے مسودے پر دستخط کر کے گویا اس امر کا اعلان کر دیا کہ یہ پوری پاکستانی قوم کی امنگوں کا ترجمان ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما پروفیسر غفور کا کہنا ہے کہ ہم اپوزیشن رہنما جب بھی بعض آئینی ترامیم کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کے پاس گئے‘ انہوں نے من و عن ہماری سفارشات کو تسلیم کیا اور ہماری پذیرائی اس طرح کی کہ ہر جائز مطالبے سے مکمل اتفاق کا اظہار کیا۔ پروفیسر غفور کی جانب سے یہ بہت بڑا خراج تھا‘ انہوں نے اپنی عمر عزیز کے آخری سالوں میں بہت سارے اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی صلح جوئی اور تعاون کی تعریف کرتے ہوئے مختلف واقعات کی تفصیلات بھی بتائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک عہد ساز شخصیت تھے‘ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنا عہد خود پیدا کرنے والے لیڈر تھے‘ وہ غریبوں اور پسے ہوئے طبقوں کی حمایت محض جمع خرچ کے طورپر نہیں کرتے تھے بلکہ عملی طورپر اس راستے کا مسافر بن گئے تھے‘ انہوں نے متحدہ پاکستان کے آخری الیکشن میں اپنی تقاریر کا جادو جگایا تو اقبال کی فکر ان کے ہم رکاب تھی۔ اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔ وہ انتخابی مہم میں پاکستان کے ہر شخص اور قصبے کے قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ گھومے پھرے اور غریب لوگوں کا احوال اپنی چشم بینا سے ملاحظہ کیا۔ میں خود اس زمانے میں سکول کی چھوٹی کلاسوں کا طالب علم تھا۔ میں نے اس بڑے لیڈر کو متعدد مرتبہ عام اور غریب لوگوں کے جھرمٹ میں دیکھا۔ انتخابی مہم کے دوران وہ ایک مرتبہ ہمارے محلے کی چھوٹی سی سڑک پر سے گاڑی میں گزرے تو لوگوں کے اصرار پر توقف کر کے مختصر خطاب بھی کیا۔ ان کی آواز میں رقت تھی‘ درد تھا اور لحن سوز سے لبریز تھا۔ اس موقع پر ایک مسحور کن فضا تھی‘ جو یقیناً ان کی آواز اور سراپا میں گندھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے جلو میں غریبوں کا جھرمٹ لے کر چلتے اور دراصل مفلوک الحال لوگوں کے لئے زندگی اور روشنی کے پیامبر تھے۔ انہوں نے پارٹی آئین بنایا تو اس میں بھی اپنے عہد کی غاصب قوتوں سے جنگ کا عندیہ موجود تھا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں ہر لحظہ نادیدہ قوتوں سے حالت جنگ میں رہے۔ یہی جنگ انہیں ایک ایسے انجام تک لے گئی‘ جہاں تب و تاب جاودانہ ان کا مقدر بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بے لوث محبت کرنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں‘ جو ان کی دیرینہ تقریروں کی کیسٹیں اور سی ڈیز سن سن کر سر دھنتے اور پھر تاسف سے ہاتھ مل کر کہتے ہیں ؎
ہم نے آواز سے پہچان لیا تھا اس کو
تم نے اس شخص کو سولی پہ چڑھا کر دیکھا
راولپنڈی چھاؤنی کا علاقہ صدر اپنی خاص سیاسی و تہذیبی شناخت رکھتا ہے‘ اسی صدر کے علاقہ میں بنک روڈ پر کرپا رام کا احاطہ مشہور تھا‘ جہاں ایک طرف وکٹر ہیئر ڈریسر کا سیلون سیاسی شخصیات کی آمدو رفت کی وجہ سے مرکز نگاہ ہوا کرتا تھا۔ اس سیلون پر خفیہ والے بھی نظر رکھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تھے تو اس وقت ان کی رہائش گاہ صدر کے قریب سول لائنز میں تھی۔ بے نظیر بھٹو شہیدہ اس وقت قریب ہی پریذنٹیشن کانونٹ سکول میں زیر تعلیم تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اکثر و بیشتر اپنے بچوں اور اہلیہ کو لے کر صدر بازار تفریح کے لئے آیا کرتے تھے۔ اس زمانے سے ان کا معمول بنک روڈ پر گاہے بہ گاہے وکٹر ہیئر ڈریسر سے بال بنوانے کا بھی تھا۔ جب وہ وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے تو وکٹر ہیئر ڈریسر کو ہر جمعتہ المبارک کے دن وزیراعظم ہاؤس کی گاڑی لے کر جاتی اور ذوالفقار علی بھٹو اپنی سرکاری رہائش گاہ پر اس سے بال بنواتے۔ پھر ایک زمانہ تھا جب پنجاب میں غلام مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے کے درمیان ٹھن گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس سیاسی چپقلش سے زنجیدہ خاطر تھے۔ انہی دنوں میں پنجاب کے جیل خانہ جات کا ایک صوبائی وزیر وکٹر ہیئر ڈریسر کے پاس آیا اور اسے ایک ٹیلی ویژن سیٹ تحفتاً پیش کرنے کے بعد بولا‘ تم ہر جمعہ کے دن وزیراعظم ہاؤس جاتے ہو‘ میرا ایک کام کر دو‘ ذوالفقار علی بھٹو پنجاب کے بڑوں کی چپقلش کی وجہ سے میرے ساتھ ناراض ہیں‘ ان کا دل میری جانب سے صاف کر دو اور بال کاٹتے ہوتے انہیں یہ باور کرا دو کہ میں پنجاب کی اس سیاسی چپقلش کا حصہ نہیں ہوں اور ان کے ساتھ دل سے مخلص ہوں۔ وکٹر نے کہا یہ کوئی مشکل کام نہیں‘ میں کر دوں گا۔ چند روز کے بعد بروز جمعہ جب وکٹر وزیراعظم ہاؤس گیا تو باتوں باتوں میں اس نے اس صوبائی وزیر کی بات چھیڑ دی اور بھٹو صاحب کو بتانے لگا کہ وہ وزیر آپ کا جانثار ساتھی ہے۔ بال بنواتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے سر موڑ کر وکٹر کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں کہا اچھا تو وہ وزیر تمہیں ٹی وی سیٹ کا تحفہ دے کر گیا ہے۔ وکٹر اس موقع پر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس تحفہ کے بارے بھٹو صاحب کو اطلاع کیسے ہو گئی؟ ذوالفقار علی بھٹو کی انٹیلی جنس معلومات بلا کی تھیں‘ لیکن 4 اپریل 1977ء کی بغاوت سے متعلق انہیں علم نہ ہو سکا اور نہ ہی ان کے کسی بہی خواہ نے اس کی اطلاع انہیں بہم پہنچائی۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو چکا‘ وہ تاریخ کا ایک متحرک اور فعال باب بن گئے‘ لیکن پاکستان کی آئندہ نسلیں تاسف کے ساتھ اپنے ہاتھ ضرور ملتی رہ جائیں گی‘ جب جب ذوالفقار علی بھٹو کے کارنامے اور سیاسی کامیابیاں ان تک پہنچیں گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئینی اور جمہوری کامیابیوں کے راستے ان کے بعد آج تک مسدود ہیں اور نجانے کب تک رہیں گے۔