بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر شملہ معاہدہ سے خود ہی منحرف ہوچکا ہے

Apr 05, 2018

وزیراعظم آزاد کشمیر کی حکومت پاکستان کو شملہ معاہدہ سے جان چھڑانے کی صائب تجویز اور مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں لیجانے کا تقاضا


وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خاں نے حکومت پاکستان کو تجویز دی ہے کہ وہ شملہ معاہدہ کے ان نکات کو جو مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ ظاہر کرتے ہیں‘ منسوخ کرکے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھائے۔ انہوں نے حکومت پاکستان پر اس امر پر بھی زور دیا کہ عالمی برادری‘ او آئی سی اور انسانی حقوق کے اداروں تک رسائی حاصل کرکے بھارت کا کشمیریوں کے خون سے رنگا ہوا چہرہ بے نقاب کیا جائے۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس مظفرآباد میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خاں نے کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت اور سینکڑوں کو زخمی کرنے کے بھارتی اقدام پر بہت دکھی ہیں اور ساری کشمیری قوم کی جانب سے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے متاثرہ علاقوں میں نہ خوراک پہنچائی جارہی ہے اور نہ ہی بھارتی مظالم کی مکمل تفصیلات سامنے آرہی ہیں۔ بھارت نے ایک آہنی دیوار تعمیر کررکھی ہے۔ انہوں نے 6؍ اپریل کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ سیاسی ماحول کو پرامن اور کشیدگی سے پاک رکھیں تاکہ یوم یکجہتی کشمیر کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف پر بھی زور دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستانی سفارتخانوں کے کردار کو متحرک کریں۔ انہوں نے 7؍ اپریل کو مظفرآباد میں آل پارٹیز کشمیر کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا اور بتایا کہ اس کانفرنس میں تمام سیاسی قیادتوں اور دانشوروں کو مدعو کیا جائیگا۔
بھارتی تسلط سے آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و تشدد کا سلسلہ ویسے تو کشمیر پر بھارتی قبضہ کے دن سے ہی جاری ہے اور کشمیری عوام گزشتہ 70 دہائیوں سے آزادی کا پرچم تھامے بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہیں تاہم ہندو انتہاء پسند نریندر مودی کے بھارتی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کشمیری عوام پر سختیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا جس میں کوئی ایک دن بھی کشمیریوں کیلئے امن و سکون سے نہیں گزرا اور مودی سرکار انتہائی اقدامات کے ذریعہ انہیں دیوار سے لگا کر آزادی کیلئے اٹھائی جانیوالی انکی آواز دبانے کے درپے ہے۔ نریندر مودی کے اقتدار کے چار سالوں کے دوران مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر انسانی خون کی عملاً ندیاں بہائی گئی ہیں جبکہ نریندر مودی مسئلہ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کیلئے انتہائی اقدامات اٹھانے کے درپے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے تو مودی سرکار اور اسکے ماتحت بھارتی فوج ہذیانی کیفیت میں ہے اور نوجوان کشمیری لیڈر برہان مظفر وانی کو بے دردی سے شہید کرنے کے بعد آزادی کی تحریک میں متحرک اسکے نوجوان ساتھیوں کا بھی عرصۂ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی اور مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجوں کو اسرائیل سے حاصل کی گئی پیلٹ گنیں فراہم کرکے انکے ذریعہ کشمیری نوجوانوں کو مستقل طور پر اندھا اور اپاہج کرنے کا گزشتہ دو سال سے بے دردی کے ساتھ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس دو سال کے عرصہ میں سینکڑوں کشمیری جوان بھارتی مظالم سہتے ہوئے شہادت کی منزل سے ہمکنار ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں کشمیری مرد وخواتین پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے بصارت سے محروم ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جس سفاکی کے ساتھ کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا ہے وہ مودی سرکار کے آئندہ کے عزائم سے آگاہی کیلئے کافی ہے۔ یہ سارے مظالم دنیا کی نگاہوں میں ہیں جن پر کشمیری نوجوان قیادتوں کی آگاہی کی مہم کے باعث عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے گاہے بگاہے نوٹس بھی لیا جاتارہا ہے تاہم یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ابھی کوئی ٹھوس پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ مودی سرکار نے امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے اپنے سفارتی ذرائع کو متحرک کیا ہوا ہے جس کے ذریعے بھارت کشمیریوں کی آزادی کیلئے پاکستان کی جانب سے اٹھائی جانیوالی آواز کو بھی ہنودو یہود کے مسلم دشمن ایجنڈے کے تحت پاکستان پر دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا کر دبانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسی تناظر میں مودی سرکار نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کیلئے کنٹرول لائن اور سیزفائر لائن پر روزانہ کی بنیاد پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے اور پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت اب تک ایک سو سے زیادہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ کشیدگی کے اس ماحول میں کنٹرول لائن سے ملحقہ شہری آبادیوں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے جن کے گھر بار اور کاروبار بھی متاثر ہوئے جبکہ سرحدی کشیدگی کے باعث نقل مکانی کرنیوالے ان ہزاروں باشندوں کی مستقبل قریب تک واپسی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
بھارت اس وقت عملاً پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے جس کیلئے وزیراعظم مودی کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی گیدڑ بھبکیاں لگاتے نظر آتے ہیں جن کے توسیع پسندانہ عزائم پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک پھیلے ہوئے ہیں جو درحقیقت مودی سرکار کا اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کو توسیع دینے کا ایجنڈا ہے۔ اس مقصد کے تحت ہی مودی سرکار پاکستان کو اندرونی طور پر بھی کمزور اور غیرمستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے جن کے تحت بلوچستان میں بھارتی ’’را‘‘ کا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا گیا اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی مذموم منصوبہ بندی کی گئی۔ گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسی تناظر میں بھارت کو باور کرایا ہے کہ اسکی سی پیک کیخلاف تمام سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتیں بھارت کو وقتاً فوقتاً یہ بھی باور کراتی رہتی ہیں کہ ہماری امن کی کوشش اور خواہش کو ہماری کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے کیونکہ ملک کا دفاع جری و بہادر و عساکر پاکستان کے مضبوط ہاتھوں میں ہے جو کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا موقع پر ہی جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
بھارت کے اب تک کے عزائم اور اقدامات سے تو یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کی میز پر پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور دوسرے تنازعات کے حل پر کبھی آمادہ نہیں ہوگا اس لئے یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ 1972ء میں بھارت نے چالبازی کے ساتھ پاکستان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر شملہ معاہدے کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان بھارت تنازعات کسی بیرونی فورم پر نہ لے جانے اور صرف دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات طے کرنے کا پاکستان کو فریب دیا تھا جو پاکستان کو اقوام عالم میں کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانے سے روکنے کے ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ اندراگاندھی نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شملہ میں یہ معاہدہ اس وقت کیا جب سقوط ڈھاکہ کے بعد 90 ہزار کے قریب جنگی قیدی موت و حیات کی کیفیت سے دوچار تھے اور بھارت پاکستان کے ہزاروں ایکڑ پر مبنی علاقوں پر قابض ہوچکا تھا۔ اس فضا میں بھٹو مرحوم نے اپنی دانست میں شملہ معاہدے کا درست قدم اٹھایا جس کے تحت پاکستان کے تمام جنگی قیدی بھارت کی قید سے واپس آئے اور پاکستان کے مقبوضہ علاقے بھارت سے واگزار کرائے گئے جبکہ بھارت نے درحقیقت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادیں غیرمؤثر بنانے کیلئے شملہ معاہدے کے ذریعے پاکستان کو صرف دوطرفہ مذاکرات کا پابند کیا تھا۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے تو پہلے ہی منحرف ہوچکا تھا جبکہ شملہ معاہدے کے بعد اس نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی بیل بھی کبھی منڈھے نہیں چڑھنے دی اور تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ بھارت اب تک ہر سطح کے مذاکرات کی میز کشمیر کا ذکر آتے ہی خود رعونت کے ساتھ الٹا چکا ہے۔ ممبئی دھماکوں کے بعد تو اس نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے ویسے ہی بند کردیئے تھے جبکہ بھارتی انتہاء پسند بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی پاکستان کی سلامتی کے ہی درپے ہوگئے ہیں جن کی جنونیت کسی بھی وقت پاکستان بھارت جنگ کی نوبت لا سکتی ہے۔
موجودہ صورتحال میں تو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ پاکستان بھارت تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اس لئے عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی بھیانک چہرہ دکھا کر اس امر پر قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان بھارت جنگ سے ہونیوالی ممکنہ تباہ کاریوں کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے پر مجبور کریں۔ اس حوالے سے وزیراعظم آزاد کشمیر نے حکومت پاکستان سے جان چھڑانے کاجو تقاضا کیا ہے وہ موزوں ترین ہے کیونکہ شملہ معاہدہ اب تک اپریشنل ہی نہیں ہوسکا تو اس کو پھانس بنا کر گلے سے لگائے رکھنے سے ہمیں کیا حاصل ہوگا۔ اس صورتحال میں مناسب یہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی سفاکیوں کی بنیاد پر حکومت ہنگامی طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلا کر شملہ معاہدے سے پاکستان کی گلوخلاصی کرانے کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر پارلیمانی فیصلہ کے تحت کشمیریوں کے قاتل اس معاہدہ سے جان چھڑالی جائے۔ اگر کشمیریوں پر اسی طرح بھارتی مظالم جاری رہے تو ایٹمی جنگ پر منتج ہونیوالی پاکستان بھارت نئی جنگ کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

مزیدخبریں