شاہ محمود قریشی اصولی باتیں کر رہے ہیں کتابی فلسفے پڑھا رہے ہیں جو عمران خان سمیت کسی کو پسند نہیں’ گورنر پنجاب چودھری سرور شاہ محمود کے ساتھ ہیں۔مدت ہوئی تحریک انصاف کے چوٹی کے ایک رہنما نے اس کالم نگار سے کہا تھا کہ ہماری جماعت بھی عمران سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہوجاتی ہے کتابی فلسفوں اور اصولی باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔رہا عمران خان کا اعتماد کہ وہ سب ٹھیک کر لیں گے ہوا میں تار تار ہو کراْڑ رہا تھا۔ عمران خان کا سیاسی فلسفہ غلط ثابت ہوا، اقتدار کی کرسی کے دو پائے ہلنے لگے ہیں۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی کسی نئے کھیل کا آغاز ہے؟ ملتان کے ازحدمحتاط طبعیت گدی نشین کی عمران خان کیATMکہلوانے پرفخر کرنے والے جہانگیر ترین پر لفظوں کی تیر اندازی آخر کیوں ہے اس کا ’نتارا‘ ہوجائے گا۔کیا یہ بنی گالہ میں خانگی تنازعہ کی خبر سے توجہ ہٹانے کی سوچی سمجھی مشق ہے؟ یا پھر وزارت عظمی کی ’شہزادی‘ کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ارمانوں کی سلگتی کہانی شروع ہوگئی؟ یہ سوالات پوچھے جارہے ہیں اور جن کے جوابات کی تلاش ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی مرنجاں مرنج چوہدری شجاعت حسین کا بیان نمودار ہوا۔ وضع دار لیکن تول کر بات کرنے والے گجرات کے چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ملک میں جتنی خراب سیاسی صورتحال ہے پہلے کبھی نہیں رہی۔ ہم اگر حکومت میں ہوتے تو سب کو ساتھ لے کر چلتے۔‘‘ پھر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کو چند ہی دن گزرے ہیں کہ شاہ محمود قریشی یکا یک برسے ہیں۔ ان کی اس ’’ادا‘‘ کو آنے والے موسموں کا اعلان قرار دینے والوں کی کمی نہیں۔
خود پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں بھی بلند ہونے لگی ہیں۔ جہانگیر ترین کے رازدار اور بااعتماد ساتھی پرویز خٹک، غلام سرور خان، فیصل واوڈا، سینیٹر فیصل جاوید اور سب سے بڑھ کر وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین ’جے کے ٹی‘ کے دفاع میں میدان میں اترے۔
سرور خان جو جہانگیر ترین گروپ کی ’اجتماعی ڈیل‘ کے نتیجے میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، انہوں نے کہاکہ جہانگیر ترین نے پارٹی کو بہت وقت اور سرمایہ دیا ہے۔ اختلافی معاملات پر کم سے کم بات کی جائے تو بہتر ہوگا۔ چوہدری فواد حسین نے ترپ کا پتا پھینکا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل میں جہانگیر ترین صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے۔
ایک پی ٹی آئی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جب شاہ محمود قریشی نے یہ بات کی تو گورنرپنجاب موجود تھے، یعنی انہوں نے اس تنازعہ میں چوہدری سرور کو بھی گھسیٹ لیا۔ یہاں تک دعوی کیاجارہا ہے کہ اگر دو تین دن میں وزیراعظم عمران خان اس طوفان کو نہ روک پائے تو پھر معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
شاہ محمود قریشی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے 35 سال سیاست کی ہے، گھاس نہیں کاٹی۔ ضلع، صوبہ اور وفاق کی سطح پر سیاست کی ہے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا سیاستدان ہوں۔ وہ ایک دن پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر تبصرہ آرائی فرماچکے تھے۔ فرمایا ’’نان ایشوز کو ایشو بنانا سیاست میں حماقت ہوتا ہے۔ بے نظیر سپورٹ پروگرام ایک نان ایشو کو ایشو بنانا سیاسی طورپر فیصلہ درست نہ ہوگا۔‘‘ دلچسپ امر یہ ہے کہ گھوٹکی میں جلسہ سے خطاب کے بعد وزیراعظم عمران خان سے جی ڈی اے کے وفد کی جوملاقات ہوئی تھی، اسی میں جب ان سے ایک رکن نے کہاکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کردیا جائے تو وزیراعظم صاحب نے جھٹ جواب دیا کہ ’’ہوگیا‘‘، ہر وزیراعظم کے اعلانات پر تالیاں بجانے والوں نے ایک بارپھر تالیاں بجاکر موجودہ ’’وزیراعظم‘‘ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ یہ نام اس طرح تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ یہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بنایاگیا ہے۔ دوسری بات وزیراعظم کی اس طرح کی ملاقات کی وڈیو کیسے بن گئی اور پھر کیسے منظرعام پر آگئی ؟ عموماً وزیراعظم جس ملاقات میں ہوتے ہیں، وہاں موبائل لیجانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر ہوبھی تو سیاسی مصلحتوں اور احتیاط کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نوعیت کی بات چیت کی فلم بندی نہیں کی جاتی۔ کیا اس وقت اور اس ملاقات میں جناب شاہ محمود قریشی موجود نہیں تھے؟
صورتحال کی اصل دلچسپی یہ ہے کہ سیاسی حماقت کی بات انہوں نے وزیراعظم کے بیان کے بعد کہی ہے جس کے بعد یہی تاثر بنا ہے کہ دراصل وزیراعظم پر جملہ کسا گیا ہے۔ اس کی وضاحت شاہ محمود قریشی صاحب نے ابھی تک نہیں دی۔ اگر کوئی اعتراض والی بات تھی تو وہ بالمشافہ بھی کرسکتے تھے لیکن براہ راست میڈیا میں ہی یہ بات کیوں کی گئی؟ یہ ہے وہ اصل سوال جس کا جواب تلاش کیاجارہا ہے۔
شاہ محمود قریشی صاحب جیسے خود کہہ چکے ہیں کہ سیاست میں انہوں نے گھاس نہیں کاٹی اتنی احتیاط کرنے والے شاہ جی کی زبان اتنی تیز کیسے چل گئی؟ یقینا کچھ تو بات ہے جس کی پردہ داری ہورہی ہے؟
ایک اور دلچسپ پہلو بھی دیکھئے کہ جناب جہانگیر ترین نے کابینہ کے اجلاس میں جب شرکت کی تھی، تو اس کو گزرے تو خاصے دن ہوچکے تھے۔ یہ بات اتنے دنوں کے بعد کیوں شاہ محمود قریشی صاحب کے لبوں پر مچل کر عوام تک پہنچی؟ وہ یہ اعتراض کابینہ کے اجلاس میں بھی تو اٹھاسکتے تھے؟ اس وقت انہیں یاد نہیں تھا یا پھر انہوں نے کابینہ میں اٹھانا مناسب نہ سمجھا؟ وہ اس بارے میں خود وزیراعظم سے بھی بات کرسکتے تھے؟ انہوں نے جلسوں کی رونق تو خوب بڑھائی ہے، ان کے مریدین کی وجہ سے کامیاب ہونے والے جلسوں میں سفر کے دوران بھی بات کرسکتے تھے۔ وزیراعظم تک بات پہنچانا بلاشبہ ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔
دراصل مدعا بات پہنچانا نہیں ، بات عام کرنا تھا۔ عمومی تاثر شاہ محمود قریشی کی گفتگو سے یہ بنا کہ انہوں نے پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بیک وقت پیغام دیا ہے۔ سیاست کی گہرے پانیوں میں اترے کھلاڑی اوپر سے کہیں دکھائی دیتے ہیں اور پانی کے اندر ان کے ہشت پا تیندوے کی طرح نجانے کہاں کہاں پائو ں پھنسے ہوتے ہیں، صرف سمندر کی گہرائیوں میں بیٹھا ہی کوئی دیکھ سکتا ہے۔ سطح سے اوپر اندازہ لگایا نہیں جاسکتا۔
پی پی پی کے خواب دیکھ کر پیشگوئیاں کرنے کے لئے مشہور منظور وسان نے گرہ لگائی کہ شاہ محمود قریشی خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو ’ری پلیس‘ کیا جائے اور ان کی جگہ شاہ محمود قریشی کو نیا وزیراعظم لایا جائے۔ سال 2020 عمران خان اور اس کی حکومت کے لیے کڑوا ثابت ہوگا۔ جون کے بعد حالات ایسے ہونگے کہ عمران خان خود ہی استعفیٰ دے دیں گے،ان سے استعفیٰ دلوایا جائے گا۔سال 2019 اور 2020 میں عمران خان سے سیا ستدانوں کو بدنام کروا کے چھٹی کروائی جائے گی۔‘‘
دونوں کی لڑائی اور درون خانہ شدید مخاصمت کوئی راز نہیں۔ عام انتخابات سے قبل ٹکٹوں اور پھر بعدازاں وزارتوں کی تقسیم پر دونوں کی جنگ جاری رہی۔ لیکن اب شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے بھائی ذرا سوچیے کہ آج جب آپ سرکاری میٹنگز میں بیٹھتے ہیں تو مریم اورنگزیب صاحبہ کو اعتراض کا موقع ملتا ہے۔ اپوزیشن کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 62 ون ایف اگر نوازشریف پر لاگو ہوتا ہے تو کہاجاتا ہے کہ نہ پارٹی کے اور نہ سرکار کے اجلاس میں بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم پر لاگو ہوجائے تو اس کا ‘‘یارڈ سٹیک ‘‘بدل جائیگا یہ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے حکم کی توہین ہے۔‘‘
جہانگیر ترین نے فوری ٹویٹ پر جواب دیا کہ ’’ایک ہی شخص ہے جسے میں اپنا لیڈر سمجھتا ہوں، وہ عمران خان ہے، آخری سانس تک عمران خان کے ساتھ رہوں گا، کسی اور کے کچھ کہنے کی اہمیت نہیں۔‘‘شاہ محمود قریشی کی بات سے برادران یوسف کی بھی بات ذہن میں آگئی۔ سیاست میں ویسے یہی رویہ رہتا ہے۔ جہانگیر ترین کا پلڑا بھاری نظرآتا ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی تنہاء ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما یہ مؤقف اپنارہے ہیں کہ اجلاس میں ان کے بیٹھنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں۔ وزیراعظم کو بھی رولز کے تحت اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی اجلاس میں بلاسکتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب نااہل قرار پانے والے شخص کا وفاقی کابینہ میں بیٹھنے کے خلاف عدالتی نظائر بھی پیش کئے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایک مؤقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ پاکستان کے کامیاب ترین کاشتکار ہیں اور زراعت کے حوالے سے ان کی ماہرانہ رائے لینے کے لئے کابینہ کے اجلاس میں ان کو بلایاگیاتھا۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی جو مؤقف اپنا رہے ہیں، وہ بعینہٖ وہی ہے جو خود عمران خان صاحب نے نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اپنایا تھا۔ اخلاقی لحاظ سے جو اعلی ترین معیار اپنایاگیا تھا، اب عمل کی کسوٹی پر سخت امتحان دینا پڑرہا ہے۔
معاشی، سیاسی اور خانگی لحاظ سے مشکلات اور دبائو کاشکار عمران خان کے لئے اپنے دو بااعتماد ساتھیوں کا یوں ٹکرانا کوئی نیک فال نہیں۔ عمران خان کو اپنی حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔ پی ٹی آئی کے وزراء مل کر عمران خان کو بند گلی میں لے جارہے ہیں جس کا دوسرا مطلب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو سیاسی فائدہ دینا ہے۔ اس کا مطلب پنجابی میں یہ ہے آنے والی جگہ آگئے۔قوم اور ملک پر رحم کریں۔ پڑھے لکھے دولت مند اور سمجھدار سمجھے جانے والے افراد کی سکول کے بچوں کی طرح لڑائیاں اور پھر مودی کی طرح عدم برداشت کا رویہ ؟؟؟ بھئی ہوش کریں۔۔ آپ کی لڑائیوں کی قیمت پاکستان اور عوام کو ادا کرنا پڑے گی۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان دونوں کو بلائیں اور کمرے میں بٹھا کر پوچھیں کہ اصل مسئلہ ہے کیا؟؟