تبدیلی کا بہت سنا تھا کیونکہ اس کا بہت زیادہ چرچا کیا جا رہا تھا، چرچا بھی کیا واویلے نے اسے چرچے کی حیثیت دے رکھی ہے لیکن جیسے ہی 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات ہوئے اور پھر اگست میں وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان نے حلف اٹھا لیا تو تبدیلی دھندلانے لگی اور آج حالت بدحال یہ ہے کہ عوام کو اس دلاسے کے علاوہ حکومت کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں کہ سابقہ حکمرانوں نے تین عشروں تک ملک اور ملکی معاملات کا ستیاناس کیا۔ لہٰذا قلیل عرصے میں بہتری گویا کہ تبدیلی لانا آسان کام نہیں، وقت لگے گا اور پھر عوام بغلیں بجاتے تحریک انصاف کے حق میں نعرے لگائیں گے۔ اللہ کرے یہ وقت آئے اور ایسا ہی ہو لیکن پاکستان کی تاریخ اس سے مختلف سبق دیتی ہے۔ عقل مند اور باشعور لوگ تاریخ کے سبق کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتے۔ آج بدقسمتی سے ہمارے شعبہ صحافت میں تاریخ سے آشنا لوگوں کی قلت ہی نہیں بحران ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہر سیاسی جماعت اٹھاتی ہے اور اس سے زیادہ ہر حکمران جماعت اس فائدے سے بھرپور استفادہ کرتی ہے۔ یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے ملک میں ریاست کا وہ چوتھا ستون جسے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا تھا اس کے کرتا دھرتا اور اعلیٰ حکومتی حلقوں میں صحافتی نمائندے بن کر وہ اینکرز سینئر صحافی کے ٹیگ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جن کی اکثریت کو صحافت کی ص اور ی تک کا علم نہیں۔ خیر یہ الگ موضوع ہے اور ہو سکتا ہے اس موضوع پر قلم کشائی کئی لوگوں کو پریشان کرے اور وہ حسب روایت ہمارے لئے پریشانیاں پیدا کریں۔ بہرحال ہمارا آج کا موضوع تبدیلی کے بارے میں ہے۔ پاکستان ہر دور میں حکمرانوں کی کج ادائیوں کے نشانے پر رہا۔ ایوب خان ایک مرتبہ بانی پاکستان جب گورنر جنرل آف پاکستان تھے ان سے آگے چل دیئے تھے جس پر محمد علی جناح نے انہیں شٹ اپ کال دی تھی لیکن ایوب خان نے پھر کیا کیا۔ تاریخ اس کو آج بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے اور تاریخ دان اس کا ڈنکا کم از کم اپنی کتب میں ضرور بجاتے ہیں۔ ایوب خان اور ملک غلام محمد ہماری ملکی تاریخ اور سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جنہیں جتنا کوسا جائے جن کے کردار پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔ وہ پاکستان کے قیام کے ابتدائی سالوں میں جو تبدیلی لائے اس تبدیلی کے پس منظر میں ہوس اور مفادات نے ملک کی دشا بدل ڈالی اور آج ہم جتنے بھی مسائل کا رونا روتے ہیں اس پر آہ و فغاں کرتے ہیں وہ انکے مرہون منت ہے۔ ہم موجودہ تبدیلی کی بات ہر زاویے سے دکھ کے ساتھ کر رہے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آپ اگر صحافی ہیں، سیاست دان ہیں، بیوروکریٹ ہیں یا کسی بھی ادارے میں خواہ وہ نجی ادارہ ہو یا سرکاری، اس ادارے میں آپ کلرک ہیں یا درمیانے یا اعلیٰ درجے کے افسر۔ اپنے عملی مقامات زندگی سے باہر نکلیں اور دیکھیں کہ عوام کو کن مسائل کاسامنا ہے۔ تھانوں، کچہریوں، سرکاری ہسپتالوں، سرکاری سکولوں، میونسپل کارپوریشنوں اور غرضیکہ جس جس ادارے کا نام لیں وہاں عوام ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ان کی کوئی سننے والا نہیں اور وہی روایتی جملہ کہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لہٰذا سوال بنتا ہے کہ جناب وزیراعظم عمران خان آپ کی تبدیلی کہاں ہے۔ کیا سرکاری محکموں کا قبلہ درست کرنے کیلئے آپکو کوئی فنڈز چاہئیں، کیا بیوروکریسی کو راہ راست پر لانے کیلئے کسی فنڈ کی ضرورت ہے۔ جناب وزیراعظم آپ فرمایا کرتے تھے کہ سڑکوں کی تعمیر سے تبدیلی نہیں آیا کرتی، پلوں کی تعمیر سے ترقی نہیں آیا کرتی تو پھر جناب جس ترقی کا خواب آپ نے اس مجبور، محکوم اور معاشی و اقتصادی مسائل کے بوجھ تلے پسی رعایا کو دکھایا تھا وہ کب پورا کریں گے۔ کس سرکاری دفتر کا قبلہ اب تک آپ اور آپ کی فورس نے درست کیا ہے۔ یقینا معاملات ابھی تک ویسے کے ویسے ہیں۔ کل ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ تحریک انصاف کی تبدیلی یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں دس ہزار روپے رشوت دے کر ہو جانے والا کام اب پندرہ سے بیس ہزار میں ہوتا ہے۔ ایسی تبدیلی کو عوام نہیں مانتے اور مسترد کرتے ہیں البتہ جہاں تک تحریک انصاف کے حامیوں کا تعلق ہے تو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستانی عوام اپنے مسائل کی چکی میں اتنے پس چکے ہیں کہ کبھی وہ مسلم لیگ(ن)، کبھی پیپلزپارٹی اور کبھی کسی سیاسی جماعت کے بے مقصد حمایتی بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے ہیں۔ گالم گلوچ ہوتی ہے اور اسی بات کا فائدہ یہ سیاستدان اٹھاتے ہیں۔ آپ ان کے پاس بیٹھیں، انکے قریب ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عام انسان سے بھی کم شعور رکھنے والے لوگ ہیں اور انکی قابلیت محض ایک ایسا دکھاوا ہوتی ہے جس کے دامن میں خالی پن کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بہرحال آج میں سرکاری ہسپتالوں میں عوام کے ساتھ ہونے والے سلوک اور تبدیلی کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا کہ انکے سامنے تو سب اچھا کی ہی رپورٹ جاتی ہو گی۔ تاہم عوام اور ہم سب تبدیلی کے منتظر ہیں وقت کبھی تھمتا نہیں، سال ہونے کو ہے، پانچ سال بھی پورے ہو جائیں گے۔ اللہ کرے خان صاحب تبدیلی کے وعدے کو عملی جامہ پہنائیں۔ یہ پانچ سال فیصلہ کریں گے کہ تحریک انصاف واقعی تبدیلی ہے یا پھر پاکستان کی دو بڑی روایتی سیاسی جماعتوں میں ایک تیسری جماعت کا اضافہ ہو گیا ہے اور جس کے حمایتی اور کوئی نہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔