یہ تو تھی بین الاقوامی میڈیا کی رائے انڈین میڈیا کے اینکروں کے بارے میں، اب آئیے ہندوستانی عوام اور سوشل میڈیا کی طرف تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہندوستانی عوام ان نام نہاد محب وطن اینکروں کو مکمل طور پر بھانپ چکے ہیں، اس لئے سوشل میڈیا پر انہیں ’’گودی میڈیا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور انہیں نریندر مودی کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھا جاتا ہے۔ اکشے کمار بھی نریندر مودی کا انٹرویو کرکے اپنی مٹی پلید کرا چکے ہیں۔ انڈین میڈیا کا کھوکھلاپن مکمل طور پر ایکسپوز ہو چکا ہے، جس کی قیمت بی جے پی حالیہ انتخابات میں ہونے والی شکستوں میں چکا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب مودی سرکار ہاتھ مل رہی ہے کہ کس طرح ان اینکروں سے جان چھڑائی جائے۔ یہ اینکرز اب بی جے پی کیلئے ’’پورس کے ہاتھی‘‘ ثابت ہو رہے ہیں۔ مودی سرکار کی حمایت اورریٹنگ کے چکر میں انڈین میڈیا مجموعی پور پر اپنا سب کچھ گنوا چکا ہے۔ انڈین میڈیا تو خیر مودی سرکار کی حمایت کرنے اور ریٹنگ کے چکر میں قومی اور بین الاقوامی طور پر اپنی جگ ہنسائی اور مٹی پلید کروا رہا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، انہوں نے بے جا اشتہاری مہم بند کروا دی اور اشتہارات دینے بند کر دیئے ہیں، جس کے نتیجے میں کچھ خاص پاکستانی میڈیا گروپ حکومت کے خلاف دن رات‘ صبح‘ دوپہر‘ شام زہر اُگل رہے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتے۔ ایک بہت بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک نیب کی حراست میں ہیں اور پاکستانی اینکروں کو اپنی بھاری تنخواہیں خطرے میں بھی نظرآ رہی ہیں اور ان میں سے بیشتر پر لفافہ صحافی ہونے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ پاکستانی اینکروں کے بے نقاب ہونے کا آغاز ملک ریاض کے پلائٹڈ انٹرویو سے شروع ہوتا ہے جوکہ سب کو پتہ ہے، جس میں مبشر لقمان اور مہر بخاری بہت بری طرح بے نقاب ہوئے لیکن نصیب کی بات ہے کہ وہ سب لوگ ابھی تک اس پیشے سے منسلک ہیں۔ کچھ اینکرز اور کالم نگاروں نے بھی پچھلی حکومت کے دوران بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور جن کی شہرت اورجانبداری دونوں ہی بہت بری طرح مشکوک ہیں اور اب بھی صحافت میں موجود ہیں اگرچہ ان کی حیثیت ’’کلنک کے ٹیکے‘‘ سے زیادہ نہیں‘ پچھلی حکومت میں انہوں نے حکومتی عہدوں کے مزے بھی چکھے۔
پیمرا اور پاکستان ٹی وی پر انہیں بڑے بھاری معاوضے پر رکھا گیا اور انہوں نے حکومت کی چاکری بھی کی اور اب بھی وہ انہی سے لفافے وصول کر رہے ہیں اور حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت انہیں بیرونی دوروں پر نہیں لے جا رہی اور نہ ہی انہیں حج اور عمرے کروا رہی ہے اور نہ ہی حکومت چلانے میں ان سے مشورے طلب کرتی ہے۔ ٹی وی چینلز کی آمدنی بہت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بری طرح سے مشتعل ہیں جس کا اظہار وہ آئے دن اپنے ٹاک شوز میں کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستانی عوام اور سوشل میڈیا پر بہت بری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ان کی ساکھ نہ ہونے کے مترادف ہے۔ عوام ان کی خفیہ آمدنی، ان کے لائف سٹائل، ان کی غیرمعمولی تنخواہوں، احمقانہ اور متعصبانہ تجزیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہیں لفافہ صحافیوں کی اصطلاح سے جانا اور پکارا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ حکومت پر کڑی تنقید کرنے کے باوجود عوام انہیں مکمل طور پر مسترد کرچکے ہیں اور اب یوٹیوب چینلز کی بڑی تعداد سامنے آچکی ہے۔ میراخیال ہے کہ پاکستانی میڈیا کو انڈین میڈیا کے انجام سے عبرت پکڑنی چاہئے اور جانبدارانہ اور متعصبانہ رویے ترک کرکے ایک اچھے اور سچے صحافی کا کردار ادا کرنا چاہئے جوکہ صحافت کا اصلی کردار ہے۔ انہیں چاہئے کہ عوام کو بیوقوف بنانا بند کر دیں ورنہ جو وہ کہتے ہیں کہ آپ کچھ لوگوں کو کچھ وقت تک بیوقوف بنا سکتے ہو اگر یہ ممکن نہیں کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوقوف بنا سکیں۔ انڈین میڈیا کے انجام سے عبرت پکڑیں اور ہوش کے ناخن لیں، بصورت دیگر انہیںبھی پاکستان میں عوام یکسر مسترد کر دیں گے۔ میڈیا کا اصلی کردار حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف اور غلط کاموں پر تنقید کرنا ہے تاکہ حکومت عوام کی بہتری کیلئے کام کرسکے۔
(میں نے گوکہ اس کام میں نیا نیا قدم رکھا ہے لیکن صدق دل سے دعا کرتا ہوں کہ میں بھی کہیں اپنے سے پہلے والے کچھ تجربہ کار کالم نگاروں کے نقش قدم پر نہ چل پڑوں۔) … (ختم شد)
’’گودی میڈیا بمقابلہ پاکستانی میڈیا‘‘
Apr 05, 2020