کرونا بیماری اور ڈاکٹروں کی خدمات کو سلام

کرونا کا مرض پوری دنیا میں پھیل چکا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی پرہیزی اقدامات کے تحت یہ مرض بہت محدود حد تک اثر پذیر ہوا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ مرض تاخیر سے پہنچا ہے لیکن وہاں ہر ملک میں اموات کی بہتات ہو چکی ہے۔ امریکہ میں ایک دن میں ایک ہزار امریکی موت کے منہ میں چلے گئے۔ مرحوم امریکیوں کی تعداد چھ ہزار سے اوپر جا چکی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ کرونائی مریضوں والا ملک بن گیا ہے۔ آئندہ کے دو ہفتے اور بھی دردناک ہوں گے۔ امریکی ایک لاکھ ہلاکتوں کے لئے تیار رہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کی انکشافی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ چین نے اپنے شہر ووہان میں کرونا وائرس کے باعث ہونے والی اموات کے حوالے سے عالمی برادری کو گمراہ کیا ہے۔ امریکی اراکین کانگریس نے چین کی حکومت پر الزامات کی بارش کر دی اور امریکی محکمہ خارجہ سے مطالبہ کیا کہ چین کے اعدادوشمار اور معلومات سے متعلق تحقیقات کی جائیں اور اموات کی صحیح تعداد دنیا کے سامنے لائی جائے۔ چین میں کرونا وائرس سے متعلق جن ڈاکٹروں اور صحافیوں نے سچ بتانا چاہا انہیں خاموش کر دیا گیا تھا۔جوابی طور پر چین کے حکمرانوں نے امریکی بیان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ بیجنگ کے رپورٹنگ پر ’’بے ہودہ تبصروں‘‘ کے ذریعے شکوک اور شہبات پیدا کر رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوئینگ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعادہ کیا کہ چین نے کرونا کی وباء سے متعلق ہمیشہ واضح اور شفاف رویہ اختیار کیا ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ صحت کے معاملے پر سیاست کرنا چھوڑ دے اور اس کے بجائے اپنے امریکی لوگوں کی حفاظت پر توجہ دے۔
چین کی کرونا وائرس بیرون ممالک کی مدد کے ذریعے عالمی سطح پر قائدانہ کردار کرنے کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر چین دوسرے ممالک کی مدد کر رہا ہے تو یہ ایک مثبت بات ہے۔ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ چین کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اب آتے ہیں فلپائن کی طرف، فلپائنی صدر روڈ ریگوڈ ٹرٹ نے کرونا وائرس کی وجہ سے کئے گئے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گولی مارنے کی دھمکی دے دی ہے۔ ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے فلپائنی صدر نے اعلان کیا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی گئی تو فلپائنی فوجی آپ پر گولی چلا سکتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ہکچائیں گے نہیں اور سیدھی گولی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے سینے پر مار سکیں گے۔ کرونا کی بیماری بہت سے مغربی ممالک میں پھیل چکی ہے۔
دسمبر 2019ء میں پہلی بار باضابطہ طور پر کرونا وائرس کا پہلا مریض چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا اور اس کے بعد یہ بیماری دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے 199 ممالک میں پھیل گئی اور ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور لاکھوں افراد پوری دنیا میں اس بیماری کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ چین نے کوئی ویکسیئن نہ ہونے کے باوجود اس بیماری پر قابو پا لیا ہے اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس بیماری کو محدود کر دیا ہے۔ چین کی حکومت کے اعلان کے مطابق اس بیماری کے ذریعے اموات کی تعداد ایک فیصد سے بھی کچھ کم ہے۔ اس بیماری کو محدود کرنے کے لیے لاک ڈاؤن یا کرفیو سے بہتر اور کوئی اقدام نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں کرفیو اگر لگ گیا تو غریب اور نادار عوام بیماری کے بجائے بھوک سے مرنے لگیں گے۔ اب آتے ہیں پاکستان کرونا بیماری کے پھیلاؤ کی طرف۔ سب سے پہلے کرونا کی بیماری ایران سے آنے والے پاکستانی زائرین کے ذریعے پھیلی جو بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ پوری دنیا میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے نو لاکھ سے زائد ہے اور ہلاکتیں پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہیں۔ اٹلی کے بعد سپین دس ہزار سے زائد اموت والا دوسرا ملک بن چکا ہے۔ امریکہ چھ ہزار سے زائد ہلاکتوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے امریکہ میں کرونا وائرس کے دو لاکھ دس ہزار سے زائد مریض سامنے آئے ہیں۔ امریکہ میں دو لاکھ سولہ ہزار، اٹلی میں ایک لاکھ دس ہزار، سپین میں ایک لاکھ چار ہزار، جرمنی میں اٹھتر ہزار اور فرانس میں اٹھاون ہزار، ایران میں اڑتالیس ہزار، برطانیہ میں تیس ہزار، سوئٹزر لینڈ میں اٹھارہ ہزار، ترکی میں ساڑھے پندرہ ہزار اور چین میں بیاسی ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف، پاکستان میں کرونا بیماری میں مبتلا پاکستانیوں کی تعداد دو ہزار چھ سو سے زائد ہے۔ چین میں 35 مریض انتقال کر چکے ہیں اور ایک سو چھبیس صحت یاب ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں۔ کرونا بیماری کا علاج کرنے والے ڈاکٹر حضرات میں سے ایک نوجوان ڈاکٹر سب سے پہلے مریض سے کرونا اپنے بدن میں منتقل ہونے سے انتقال کر گیا۔ بعدازاں تین اور ڈاکٹر کرونا مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گئے لیکن تمام پاکستان کے ڈاکٹر حضرات آج بھی کرونا بیماری کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ ہم پاکستانی ان تمام ڈاکٹروں کی خدامات کو سلام پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن