بیالوجی کی ڈکشنری(حیاتیاتی لغت)میں کرونا وائرس کے لفظ کے اضافہ نے5Gکے متحرک دور میں قدم رکھنے والی دنیاکا غرور خاک میں ملا دیالاطینی امریکہ سے انٹارکٹیکا اور صحرائے گوبی سے لے کر ہمالیہ تک سب ممالک یعنی پوری دنیا کو اس بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والے اس وائرس نے حضرت انسان کی محدودیت اور رب ذوالجلال و مقام لا مکاں اور وسعت لافانی حقیقت کو پھر سے اصل مقام پر لا کھڑا کیا جو کہ انسان کی بے مہار ترقی میں گم گشتہ ہو چکی تھی اور بے مہاری کے نتیجہ میں انسان اپنے آپکو عقل کل تصور کر بیٹھا تھا۔عالمی سطح پر لاکھوں افراد کو متاثر کرنے اور ہزاروں انسانی زندگیاں نگلنے کے بعد جہاں جہاں یہ نا گہانی آفت جا پہنچی وہاں وہاں ہر ملک نے چین کے شہرووہان کے طریقہ علاج کو رول ماڈل کے تحت فالو کرتے ہوئے شہر شہر قریہ قریہ کو لاک ڈائون کرنا شروع کر دیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ سے دو ماہ کے اندر اندر پوری دنیا لاک ڈائون ہو گئی تا کہ شہریوں کی متحرک زندگیوں کو گھروں تک محدود کر کے خطرناک حد تک ہلاکتوں سے بچایا جا سکے ۔یہ بات طے ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میںاس عذاب الہیٰ اور آفت نا گہانی کے نتیجہ میں انسانی زندگیوں پر مرتب ہونے والے معاشی،معاشرتی ،سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے اثرات پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں کتابیں تو ضرور لکھی جائیں گی۔ہر ملک اپنے اپنے وسائل کے مطابق اس آزمایش خدا وندی سے نبرد آزما ہونے میں مصروف عمل ہے اس ضمن میں اگر پا کستان کا کرونا ائرساپنے شہریوں کو بچاو اور محفوظ رکھنے کے لئے بات کی جائے جو آنے والے دنوں میں تاریخ کا حصہ بن جائے گی تو ہماری نسلوں کو پتہ چلے گا جہاں پو ری دنیاکے ممالک اپنے اتحاد و یگانگت سے اس بیماری سے جنگ میںایک مٹھی تھے وہاں قوم مسلکی گروہی الزام تراشیوں میں دست وگریباں تھی کسی کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان میںایرانی زائرین سے یہ وائرس پھیلا تو کسی کا یہ کہنا تھا تبلیغی مراکز سے یہ وبا منتقل ہوئی۔یہ بھی یاد رکھا جائے گا اس کٹھن گھڑی میں حکومت کا دست بازو بننے کی بجائے ملک کے بڑے بڑے بزنس ٹا ئیکون روپوش ہو گے اور یہ بھی کہ ملکی ایم پی اے اور ایم این سوشل ڈسٹینس کے نام پر اپنے ووٹروں کو ان کے حال پر چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے۔یہ بات بھی نہیں بھلائی جائے گی کہ موت کی وادیوں میں بھی بلیک مارکیٹینگ کا رقص کرنے والوں نے رقص جاری رکھا اور اشیاء خورد و نوش کی مصنوعی قلت سے قبل ملک بھر سے فیس ماسک اور سنیٹائزر غائب ہو گئے دس روپے والا ماسک ساٹھ میں اور چار سو والا سنیٹا ئزر سولہ سو میںبیچا گیا۔ صرف یہ بات فخر سے یاد کی جائے گی کہ چین سے کٹوں اور دیگر امدای سامان کے عطیہ اور فراہمی سے قبل فرنٹ لائن پر جنگ لڑنے والے ہمارے ڈاکڑ اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف صرف خود ساختہ ماسک اور شاپر پہن کر کئی ہفتوں تک یہ جنگ لڑتے رہے جس کے نتیجہ میں کچھ ڈاکٹر اور نرسوں کو موت کے منہ جانا پڑا۔لیکن انکی عظمت کو سلام کہ آج سب تندھی سے اپنے فرائض منصبی اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر قومی خدمت میں پیش پیش ہیں اور یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس جنگ فرنٹ لائن فائٹرز ڈاکٹروں اور نرسوں کو سلامی پیش کی۔اور یہ بھی کہ پولیس ،وارڈن ،آرمی اور دیگر فورسس انتہائی تندہی سے فرائض دیتی نظر آئیں اور ابھی بھی لگن سے مصروف عمل ہیںاس موقع پر رفاعی اداروں اور افراد کی خدمت کو بھی سلام پیش کیا جائے گا جو تنگی داماں اور حالات کے باوجود مفلسوں کے چولہوں کو روشن رکھنے میں مصروف عمل رہییہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ اس وقت صوبہ پنجاب میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نے اس وبائی چیلنج سے نبٹنے کے لئے عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کے سوشل ڈسٹینس کے مرتب کردہ اصولوں کے تحت سب سے پہلا ٹیلی میڈیسن ہیلپ ڈیسک قائم کیا تا کہ کرونا وایئرس سمیت تمام مریضوں کو فاصلاتی طبی مشوروں سے علاج کیا جاسکے اس وقت پورے پنجاب میں بیس کرونا ہیلپ ڈیسک جن میںسے وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پرو فیسر ڈاکٹرخالد مسعود گوندل اور پروفیسر آف کمیونٹی میڈیسن ڈاکڑ سائرہ افضل کی زیر نگرانی چلنے والے کرونا ہیلپ ڈیسک کوگورنر پنجاب چوہدری سرور نے رول ماڈل قرار دیا جس کے تحت اب تک ملکی اور غیر اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مفت مشورہ علاج کیا جا چکا ہے ہر 24 گھنٹوں میں سکائپ ،وٹس ایپ اور فون کال پر پاکستان،عرب ریاستوں، انگلینڈ اور جرمنی سے ایک ہزار سے زائد وصول ہونے والی کالوں پر طبی رہنمائی فراہم کی گئی اور قریبا دو ہفتوں میں پندرہ ہزار کے لگ بھگ مریضوں کا علاج ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔