ڈاکٹر ظفر مرزا ،جو کہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر صحت ہیں، کل، ایک پروگرام میں فرما رہے تھے کہ کرونا کے مریض بیشک اپنے اپنے گھروں میں رہیں اور اپنے آپ کو علیحدہ رکھیں ۔اور ان کیلیے ہسپتال داخلہ ضروری نہیں ہے اور ان کو چاہیے کہ باہر نکلنے اور لوگوں سے میل جول سے پرہیز کریں۔اور اپنے گھروں میں بھی اپنے آپ کوآئسولیٹ کرلیں۔بظاہر یہ ایک عام سی بات لگ رہی ہے، لیکن اس خبر سے بہت لوگوں کو اس افراتفری اور افواہوں کے دور میں کچھ سکون ضرور آیا ہے کہ جن کے مطابق اب ان یعنی کرونا مریضوںکو پولیس چھاپوں یا ان کی افواہوںسے تو نجات مل جائے گی اور ان سے انکا گھر رہنے کی سہولت چھینی نہیں جائے گی اور اگر پہلے وہ کرونا ٹیسٹ کرانے سے خوف زدہ تھے، تو اب وہ خود ہی بے خوف ہو کر ٹیسٹ کروانے کی طرف مائل ہوں گے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ایسے حالات میں بے بنیاد افواہیں جنم لینا شروع ہو جاتی ہیں۔اکثر لوگ یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اگر ان میں کرونا ،خدا نخواستہ نکل آیا،تو پولیس چھاپہ مار کر ان کو گرفتار کر لے گی کیوںکہ پنجاب کے محکمہ صحت کی طرف سے واضح ہدایات عوام تک افوا ہوں کی شکل میں پہنچ رہی تھیں۔دوسرا لاک ڈاؤن کے نام اور خدشات پہلے ہی بدرجہ اتم موجود تھے اور بڑھتے بڑھتے یہ تمام خدشات دیہاڑی دار عوام کو زیادہ فکرمند کر رہے تھے،بھلا ہو عمران خان کا،جو انہوں نے کہاکہ مکمل لاک ڈاؤن سے پہلے ہم عوام کو راشن وغیرہ گھروں تک پنچانے کا انتظام کریں گے۔اس سے بھی عام لوگوں کو کچھ تسلی ہوئی ۔تیسری بات یہ کہ چائینہ سے میڈیکل کا سامان بھی آرہاہے اور لوگوں کو علاج کے حوالے سے بھی کچھ اچھی خبریں ملنے کو آرہی ہیں۔اور کچھ سکون کا سانس لینے لگے ہیں۔مگر انکے تحفظات بدستور موجود ہیں کیوںکہ بیروزگار ی ،بیماری کا خوف ،لاک ڈاؤن اور انہونی باتیں انکو ہراساں اور خوفزدہ کر رہے تھے۔علاج وغیرہ کے سلسلے میں ویسے بھی ہمارے ہسپتالوں کی کارکردگی کبھی مثالی نہیں رہی۔ آئے روز خبروں میں دوائوں کا نہ ملنا،مریضوں کے ساتھ بدسلوکی یا بے توجہی سرکاری ہسپتالوں میں بیڈ اور سہولیات کی کمی کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں ،مختلف ٹاک شوز میں ،جب کہ عوام کرونا کے خوف میں زیادہ مبتلا ہیں ،وہ ہر پروگرام بڑے غور سے سنتے ہیں اور ان کو پتہ چل جاتا ہے کہ انتہائی ضروری وینٹیلیٹرز اور تشخیص کٹس بھی ابھی تک کافی تعداد میں میسر نہیں۔ ہسپتالوں کی گندگی ،ڈاکٹروں اور نرسوں کو حفاظتی کٹس میں کمی،یہ تمام چیزیں عوام کو پہلے ہی پریشان کر رہی ہیں جبکے کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ کرنے میں جلدی کہ کہیں یہی روزمرہ کی کھانے کی چیزیں کہیں نایاب نہ ہو جائیں۔یہ قدرتی امر ہے کہ جب ہر قسم کا کاروبار ٹھپ ہے،تو ہماری عوام کی اکثریت جو دیہاڑی دار یا مزدور طبقہ یا اوسط درجے سے نیچے ہے،ان سب باتوں سے پریشان تو لامحالہ ہوگی جبکہ اکثریت پڑھے لکھوں کی نہیں ہے۔
ہر ذی شعور بندہ یہ سوچ رہاہے کہ ماہانہ تین ہزار میں آج کے دور میںکیسے گزارہ ہو گا۔ ویسے بھی سفیدپوش طبقہ کیسے آٹا ،چینی کے لیے ہاتھ پھیلائے گا۔ ہم حکومت کو ممکنہ خدشات اور ممکنہ خامیوں کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔
کوئی شخص یا حکومت غلطیوں سے پاک نہیں،لیکن غلطیوں سے سیکھنا اور عوام کی فلاح کے لیے قدم اٹھانا اور مثبت تنقید برداشت کرنا افرtاد اور قوموں کی بقا اور فلاح و سلامتی کا سبب بنتی ہیں۔طرز کہن پہ اڑنے کی بجائے ،اگر ہم مغربی ملکوں کی طرف دیکھیں، توان کے ہسپتالوں کے بہترین سسٹم سے لے کر،ان کے جمہوری اداروں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا، اور قانون کی حکمرانی تک ، ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا۔کاش ہم جلد سے جلد ،جو ہماری کتاب مقدس میں درج ہے، صراط مستقیم کی طرف لوٹ جائیں اور جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس کی عملی نفی کرکے دکھائیں اور ہر کمزور و طاقتور کے لیے ایک قانون قائم کر کے دکھائیں۔ تو پھر کرونا تو کیا،بڑے سے بڑا عقدہ بھی حل ہو جائے گا یہ تمام افراتفری صرف اور صرف لاقانونیت سے ہے۔ جب ہر بندہ ٹیکس دے رہا ہوگاہر بندہ قانون پر عمل کر رہا ہوگا،تو کسی کو کسی کا خوف اور نہ ہی اضطراب اور افراتفری جو ،آج کل نظر آرہی ہے ،نظر آئے گی۔کیوںکہ دلوں کا اطمینان صرف خدا کی اطاعت میںہے۔تازہ اطلاعات کے مطابق ایک طرف مریضوں کی تعداد میں غیر متوقع اضافہ نہیں ہورہا،اور چینی ڈاکٹروں اور سامان کی آمد بھی ہو رہی ہے عوام بھی ،فوج بھی،ڈاکٹر بھی، اپوزیشن اور حکومت بھی ،غرض سب ایک پیج پر، پو رے زور سے ،مقدور بھر،اس وبا سے لڑنے کیلیے ہر قسم کے وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔اس لیے ہمیں خدا کے حضور سربسجود ہو جانا چاہئے اور اس ناگہانی آفت سے بچنے کے لیے استغفار کرتے رہنا چاہیے۔ کیوںکہ وہ ہی نظام ہستی چلا رہا ہے اور وہ ہی مالک وحاکم ہے جو ہر بلا کو ٹال سکتا ہے۔مایوسی کفر ہے ۔