ماسک و سینیٹائرز اور بھوک وافلاس میں جکڑی پاکستانی قوم

اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ گزرتے لمحات کے ساتھ دنیا میں جاری سیریل کی بارہویں وبا کرونا وائر س ہے ۔اِس سے قبل دنیا میں گیارہ وبائی(امراض) مختلف اشکال میں نازل ہوچکے ہیں جن سے کروڑوں اِنسان لقمہ اجل بن گئے ۔کرونا وائرس نے ساری دنیا میںاپنی ہولناکی کے پنچے گاڑلئے ہیں ، اِدھر سے اُدھر تک دوسو سے زائد ممالک اِس سے متاثرہیں۔ اِس وائر س سے دنیا کا ہر اِنسان ایک خوف میں مبتلاہے ، ہر کسی کواپنی لاچاری والی موت کے بعد تدفین کا درناک منظرکھلی آنکھوں نظر آرہاہے۔ یقینی طور پردنیا کا ہر فرد اپنے انجام سے باخبر ہے مگربڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری قوم میں بہت سے ایسے ہیں جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے درد ناک انجام سے بے خبر ہیں۔ سب کچھ مذاق میں اُڑاکر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیئے ہوئے ہیں۔انا اور ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ تفتان ، تبلیغی جماعت اور لاک ڈائون کرنے اور نہ کرنے والے معاملے کو ہوا دے کر اپنی سیاست و حکمرانی اور اپوزیشن و صوبوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی ضدوہٹ دھرمی پر قائم ہیں جبکہ موجوہ حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اُ وپر سے نیچے تک سب کو کرونا وائر س سے مقابلے کے لئے یک جان اور یک زبان ہوکر ایک پیچ پر ہونا چاہیئے تھاجو کہ اَبھی تک ایسا ہوتا دِکھائی نہیں دے رہاہے۔ جا بجا محسوس ہورہاہے کہ جیسے سب ہی کروناوائرس کی اِس وبائی آزمائش سے اپنی احتیاط کرنے کی بجائے
صریحاََ لاپروائی کا مظاہرہ اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کرکر رہے ہیں ۔ایسا کرنا اور سوچنا ایک طرف خلافِ شریعت بھی ہے تو دوسری جانب غیراخلاقی رویہ بھی ہے۔جس احتیاط کے کرنے کا پابند کیا جارہاہے اِس پر سب کو عمل کرناچاہیئے ناکہ مذہب اور معیشت کی چادر تان کر اپنی اپنی چلائی جائے۔ ہماری پاکستانی بھی دنیا کی عجیب قوم ہے جو 72سالوں میں خطرات میں رہنے کی عادی ہوگئی ہے ،جِسے ہمیشہ سیاست دانوں نے لولی لنگڑی جمہوریت کے ہوتے ہوئے آمریت کے خطرے سے،میری غربت میں دھنسی قوم کو غربت کے خطرے سے ،مُلک میں کرپشن واقرباء پروی کو بڑھاوادے کر کرپشن اور اقرباء پروی کے خطرے سے، بھوک وافلاس میں جکڑ کر بھوک و افلاس کے خطرے سے ہمیشہ ہی تو ہمارے حکمرانوں نے مُلک اور قوم کو دوسروں کی جنگ کا حصہ بنا کر دہشت گردی اورقتل و غارت گری کی بے لگامی کے خطرات کی گود میںلے کر پالاہے اور پوری پاکستانی قوم کو خطرات کا عادی بنا دیاہے۔چنانچہ آج پاکستانی قوم نظر آنے اور نظرنہ آنے والے(بشمول کرونا وائرس جیسے) ہر قسم کے ظاہر و باطن خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اِنہیں سمجھے بغیر اِن سے کھیلنے کی عادی ہوگئی ہے، حالاں کہ خطرہ ہو یا خطرات اِن کے بڑے بھیانک نتائج ہوتے ہیں، جنہیں ہمیشہ کسی ایک کی غلطی کی وجہ سے پوری قوم کو خمیازہ
بھگتناپڑتاہے۔آج کرونا وائرس کی المناکی کو سمجھے اور ناسمجھے بغیر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے پر چل رہی ہیں۔ صوبے لاک ڈاون سے ہونے والے طویل فوائد پر متفق ہیں جبکہ وفاق پہلے ہی دن سے مکمل لاک ڈاون اور کرفیو کو مُلکی معیشت اور مزدور اور روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے طبقے کے لئے زہرقاتل سمجھتاہے۔ اِس معاملے پر صوبوں کی اپنی منطق ہے اور وفاق کا اپنا ہی انوکھا راگ ہے۔کرونا وائرس کے ایشو پر وفاقی حکومت کو صوبوں کے اچھے اقدامات اور حزبِ اختلاف کو وفاق کے غریب و مزدور طبقے کی ریلیف کے لئے اربوں کے مختص کیئے جانے والے منصوبے نظرنہیں آرہے ہیں ۔گوکہ دونوں ہی جانب سے توُتومیں میں لگی ہوئی ہے جبکہ اَب تک اِس آزمائش سے نبردآزماہونے یا چھٹکارا پانے کے لئے سِوائے مکمل و جزوی لاک ڈائون ،سوشل رابطے کو محدود کرنے ،چہرے پر ماسک لگانے، کھانسی اور چھینکتے وقت رومال اور ٹشو کے استعمال اوروقفے وقفے سے بیس سیکنڈ تک اچھے صابن سے بار بار ہاتھ دھونے ، سینیٹائزرکے استعمال کی عوام الناس کو ترغیب دینے کے پاکستان و امریکا سمیت کسی کے پاس کوئی دیر پا لائحہ عمل نہیں ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے کرونا وائر س کی نازل ہونے والی ناگہانی آزمائش کے سامنے پوری دنیا بے بس اور لاچارہوگئی ہے ۔دنیا کو اپنی طاقت اور حکمت سے غلام بنانے والے ممالک بھی کرونا وائرس سے تباہی پر پر ہاتھ باندھے کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اِس کے خلاف اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے تک دنیا کی ٹھیکیدار بنی عالمی اور سپر طاقتیں کچھ اچھا نہ کرنے کا عزم کیئے ہوئے ہیں۔آج ایسا کیوں ہے؟کرونا وائر س سے ڈرنا نہیں سب کو لڑنا ہوگا ‘جب اِس سے لڑنے کی ہمت پیداکرلیں گے توپھرہمیں بہت جلد لگ پتہ جائے گا کہ اِس سارے معاملے کے درپردہ کس کے کیا مقاصد تھے اور کون کیا چاہتاتھا؟ دنیا پر حکومت کرنے میں کون کتنا کامیاب ہوا ہے؟ ناکامی کی دھول چاٹتے ہوئے کون اپنی طاقت اور گھمنڈ اور دورجدید کے نمرودی دعوئوں کا تناہوا برج زمین بوس کرچکاہے۔بہرحال، اَب انتظار کی طویل گھڑیاں بہت جلدختم ہونے کو ہیں۔اگرچہ اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ کروناوائرس سے متعلق ابھی تک بڑے ابہام موجودہیں۔ کوئی اِسے طاقت ور ممالک کی دنیا بھرمیں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کی سازش قراردے رہاہے تو کئی ایسے بھی ہیںجو اِس عالمی وبا ء کو عذاب الٰہی کہہ رہے ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا اِس کے تدراک کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اِس بحث میں پڑکر بٹ گئی ہے کہ یہ کسی کی شرارت ہے یا عذابِ الٰہی ہے ۔؟کچھ بھی ہے؟ مگر اِتنا ضرور ہے کہ اِس بیمار ی نے زمینِ خداپر خود کو سُپر طاقت گرداننے والوں سمیت کئی کمزوراور قرضوں پر پلنے والے ممالک کے بھی پیر اُکھاڑ دیئے ہیں۔ آج جہاںسارا عالم خوف میں مبتلاہے، خواہ دنیا کے امیر ممالک ہوں کہ غریب جو بھی ہیں۔ کبھی جس نے اُوجِ ثریاپر کمند ڈال دی ہو غرض یہ کہ خواہ کوئی بھی ہے اورترقی و خوشحالی ، جنگی سازوسامان اورمعدنی دولت سے مالامال سُپر طاقتیں امریکا، لندن ،فرانس ، جرمنی ،اٹلی، اسپین ،سعودی عرب ، انڈیا ، پاکستان اور دیگرغریب ممالک ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں ہونے والے مہینوںکے مکمل یاجزوی لاک ڈائون یا کرفیوکی سی صورت حال نے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو زمین بوس کردیاہے۔ یا بہت سے قریب دھول ہیں تووہیں اِس وائرس نے کئی معصوم اِنسانوں کو آغوشِ قبرمیں بھی پہنچادیاہے اور کئی متاثرینِ وائرس قبرکی منوں مٹی تلے جانے کے منتظرہیں جبکہ دنیا بھر میں کئی لاکھ ایسے بھی اِنسان ہیں جو اِس مہلک اور جان لیوا وائرس سے بسترِ مرگ پر پڑے اِس وبائی وائرس سے مقابلہ کررہے ہیں۔ آج صرف ضرورت اِس امر کی ہے کہ بس ہجوم اور سوشل رابطے میں احتیاط برتی جائے تو اِس وائرس کو شکست دی جاسکتی ہے ۔مرنے کے امکانات تو کسی بھی وقت کسی بھی بیماری اور حوادث سے بھی ہیں۔مگر ہر معاملے میں احتیاط کی جائے تو مرنے سے زیادہ زندگی کا تناسب ہے ۔بس کروناوائرس سے محتاط رہنے والی آگاہی حاصل کی جائے اور ماہرین طبیعات اور چین کے تجربات سے سیکھا جائے اور اُن احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے جو بتائی جارہی ہیں تو کروناوائرس کو اِس کی موت مارسکتے ہیں۔ ورنہ ہماری ذراسی بے احتیاطی اور قسمت کے لکھے پر عمل کرنے والا ہمارا عمل یقینی طور پر ہمیں لاچاری والی موت کے منہ میں دھکیل دے گا اور متاثرہ شخص اپنی ہی بے احتیاطی اور غلطیوں کی وجہ سے آغوشِ قبر میں منوں مٹی تلے خود چلا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن