حضرت انسان کو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنا کر بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا۔ جو فرد ان صلاحیتوں کا بروقت اور مناسب استعمال کر لیتا ہے وہ اس دنیا میں اپنا مقام بنا لیتا ہے۔ اس رازکو جن عظیم مسلم فلسفیوں اور دانشوروں نے بڑے خوبصورت اور موثر انداز میں بیان کیاان میں مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔ اگرچہ دونوں ہستیوں کے درمیان کئی صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن اس کے باوجود بہت گہراروحانی تعلق ہے۔اقبال رومی کے افکار سے متاثر تھے۔ مولانا روم کواپنا روحانی پیر و مرشد یعنی پیر رومی اور خود کو مرید ہندی کہتے تھے۔ یقیناً یہ روحانی فیض ہی تھا جس کی وجہ سے آپ کے کلام میں تاثیر پیدا ہوئی۔ یوں تو حضرت علامہ کا سارا کلام ہی اکسیر کا درجہ رکھتا ہے لیکن۔’’بال جبریل ‘‘ میں ایک نظم’’پیر و مرید ‘‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ عالم خیال میں حضرت علامہ کا مولانا روم سے ایک تخیلاتی مکالمہ ہے جو مرید ہند ی کے مفید سوالات اور پیر رومی کے عمدہ سبق آموز جوابات پر مشتمل ہے۔انسان کی حقیقت کے بارے میں ایک سوال
سر آدم سے مجھے آگاہ کر
خاک کے ذرے کو مہر وفا کر
کا جواب قابل غور و توجہ ہے
ظاہرش را پشہ آرد بچرخ
باطنش آمد محیط ہفت چرخ
یعنی اس انسان کا ظاہر تو اتنا کمزور ہے کہ ایک مچھر سے پریشان ہو جاتا ہے لیکن اس کے باطن میں اللہ پاک نے ایسی صلاحیتیں رکھی ہیں کہ سات آسمانوں پر چھا سکتا ہے۔
جب بھی کسی سیلف میڈ کامیاب انسان کی سوانح عمری کے مطالعہ کا موقع ملتا ہے تو بے ساختہ مولانا جلال الدین رومی کے دیگر اشعار کے ساتھ یہ شعر بھی یاد آتا ہے۔چند روز قبل ایک بڑی دیدہ زیب کتاب کا تحفہ موصول ہوا۔مطالعہ شروع کیا،عمدہ اسلوب اور منفرد اندازتحریرسے دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا اور چند نشستوں میں بغیر کسی بوریت کے کتاب مکمل پڑھ لی۔
قارئین محترم یہ تذکرہ ہے سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ارشاد حسن خان کی خود نوشت سوانح عمری’’ ارشاد نامہ’’ کا۔ یہ داستان ہے اس شخصیت کی جو قیام پاکستان سے قبل بچپن میں ہی والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔جس نے ہجرت کے بعد مشکل حالات ، معاشی اور معاشرتی مسائل کے باوجود ایک نئی سرزمین پر اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے گریجوایشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل کا امتحان پاس کیا۔ایک بڑے اشاعتی ادارہ میں بطورمعاون ملازمت کا آغازاورپھر چیف جسٹس پاکستان بننے تک کا سفر طے کیا۔صحیح معنوں میں یہ ایک سیلف میڈ انسان کی آپ بیتی ہے۔ عزم و ہمت، ارادہ کی پختگی، جذبہ، لگن اور جنون کی کہانی ہے۔ بے شک اردو کی تازہ ترین خود نوشت سوانح عمریوں میں’’ ارشاد نامہ ‘‘ایک عمدہ اضافہ ہے۔سوانحی ادب اردو کی جدید اور اہم نثری صنف ہے۔اگر سوانح عمری کسی سیلف میڈ شخصیت کی ہو تو ادبی ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ قاری کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قطرہ پر گہر ہونے تک کیا کچھ گزرتی ہے اس کا بیان بڑا دلچسپ اوراثر انگیز ہوتا ہے۔دوسروں کے احوال کو بیان کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اپنی سوانح حیات لکھنا بہت مشکل ہے۔ سوانح عمری میں صرف اپنی ذات اور شخصیات کا اظہار مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر طاہر منصور قاضی نے بڑی خوبصورت بات لکھی کہ’’ خود نوشت سوانح عمری صرف ذاتی تسکین طبع کا باعث ہی نہ ہو اس میں دوسروں کے لیے ذاتی زندگی کے تجربات سے کشید کردہ معنی کا امرت بھی ہوورنہ حیات و ممات کے عظیم دھارے میں زندگی توہر انسان کی گزر ہی جاتی ہے۔‘‘تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو’’ارشاد نامہ ‘‘خود نوشت سوانح کے تمام فنی تقاضوں پر پورا اترتی ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی تسکین کے ساتھ حوصلہ افزائی اور ترغیب کا سامان بھی لیے ہوئے ہے۔اس کتاب سے یہ سبق ملتا ہے کہ کس طرح خود اعتمادی کے ساتھ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے عظیم کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ایک کالم میں’’ ارشاد نامہ ‘‘ کے تمام محاسن بیان کرنا یقیناً ممکن نہیں۔سب سے بڑی خوبی تو یہ ہے کہ یہ قومی زبان اردو میں لکھی گئی ہے ورنہ ہمارے ہاں اکثرانگریزی زبان میں لکھنے کا رواج ہے اور اسے بڑائی سمجھا جاتا ہے۔ فاضل سوانح نگار نے ہرواقعہ کو بیان کرنے میں صاف گوئی سے کام لیا ہے۔بچپن، زمانہ طالبعلمی، اورملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی زندگی کا ذکر انتہائی دلچسپ ، ہلکے پھلکے اور کھلے انداز میں کیا ہے۔خود نوشت میں کئی دلچسپ واقعات شامل ہیں مگر سب سے بہترین اور یادگارقائد اعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔ارشاد حسن خان کی پاکستان سے محبت قابل ستائش ہے اس لیے آپ نے اس کتاب کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے نام انتساب کیا ہے۔’’ارشاد نامہ ‘‘میں سیاست ،تاریخ اور قانون کے طالب علم کے لیے بہت کچھ ہے۔ارشاد حسن خان صاحب کو اللہ رب العزت نے عاجزی اور انکساری کی دولت سے نوازا ہے۔ بڑے عہدے اوربہتر معاشی اور سماجی حیثیت ہونے کے باوجود غرور اور تکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔واٹس ایپ کے ذریعہ ہر روز بلا ناغہ ایک تفصیلی حمدیہ دعائیہ پیغام آپ کی دین سے محبت اور لگن کی بہترین مثال ہے۔
کتاب کے آخر میں معروف صحافی، کالم نگار، ادیب، شاعر، دانشوراور قانون دان جناب سعید آسی صاحب کا جامع اور مدلل تبصرہ ، جس میں ملکی تاریخ کے اہم عدالتی کیس کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔