’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ‘‘

جوتیوں میں دال بٹنے کا سنا تھا ۔اب دیکھ بھی لیا۔ معاملہ سول پروپرائٹر شپ کا ہے   … نہیں ،بات ڈیلر شپ کے حصول کی ہے۔پہلے ہم فخریہ کہتے تھے کہ ہماری کوئی دوسری برانچ نہیں لیکن سنا ہے اب کے معاملہ ایسا نہیں۔ ڈرامہ کے ایک کردار میں ڈھلے ۔نثار قادری کے بقول وقت کم ہے اور مقابلہ سخت!پی ڈی ایم کا قصہ تمام ہوا لیکن ابھی قصہ گو ماننے کو تیار نہیں ہے،سامعین اور حاضرین کو پتہ لگ چکا ہے لیکن کہانی کار سوچتا ہے کہ ابھی وہ کہانی سنا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ لسی میں پانی ڈال کر اسے بڑھایا جاسکتا ہے لیکن لسی کی سفیدی مرنے کے بعد جتنا مرضی پانی ڈالتے جائیں کوئی اسے لسی مانے گا تھوڑی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ " بے اصولی سیاست  "   برداشت نہیں ،سمجھوتہ نہیں ہوسکتا،ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوگا۔ادھر شازیہ مری اور بلاول کچھ اور کہتے ہیں ان کے مطابق کہنے کو وہ بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن اتحاد کو قائم رکھنے کی خاطر چپ ہیں ۔اپنی اپنی جگہ دونوں درست کہہ رہے ہیں لیکن اگر ماضی کو دیکھا جائے تو دونوں غلط بھی ہیں ۔ویسے تو میرا ماننا ہے کہ پاکستانی سیاست کا اصولوں سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) تو بالخصوص اپنے ممبران کے سواد اعظم کودیکھتے ہوئے اصول نامی پرندے کے اڑ جانے پر واویلے کا کوئی خاص حق نہیں رکھتی۔ یہ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر وہ سمجھوتہ جو مسلم لیگ (ن) کرے وہ اصولی ہے اور کوئی دوسرا جو بھی لین دین کرے وہ بے اصولی کے سوا کچھ نہیں۔شریف فیملی کا جدہ جانا "  اصولی سیاست  "  نامی کتاب کا پانچواں یا چھٹا باب تھا۔ضیاالحق کے ہاتھ پر بیعت کرنا اگر پیش لفظ مان لیں تو پنجاب  کی حکومت،محترمہ بے نظیر کو بطور وزیراعظم پروٹوکول نہ دینا،ان کے خلاف سازشیں کرنا،اسامہ بن لادن کے پیسے قبول کرنا،چھانگا مانگا،لانگ مارچ ،ٹرین مارچ  اورتحریک نجات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے ساتھ اس وقت کی حکومت کے خلاف پیش قدمی کرنا،میمو گیٹ میں ایک موقف اور ڈان لیکس میں دوسرا موقف ،یہ سب چند سنہری جھلکیاں ہیں جو اسی کتاب سے ماخوذ ہیں ۔اسی  "  اصولی سیاست  " کے تحت ڈان لیکس میں پرویزرشید اور طارق فاطمی گھروں کو بھیجے گئے،پانامہ لیکس میں ٹی وی،پارلیمنٹ اور عدالت میں تین مختلف موقف پیش کیے گئے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور میاں نواز شریف کی لندن روانگی…کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں؟ "  اصولی سیاست  "  کی اس گھٹاٹوپ ,, روشنی،، میں تمام سنگ میل چمک رہے ہیں۔یہ بات بتادوں کہ اس چمک کا کسی بریف کیس،سپریم کورٹ پر حملے یاججز کو فون پر مخالفین کو سزا سنانے جیسے دیگر کارناموں سے کوئی لینا دینا نہیں۔لندن سے لے کر پاکستان میں جائیداد ہونے یا نہ ہونے کے معاملے پر بات کرنیوالے لوگ "  اصولی سیاست"کی نزاکتوں کو کہاں سمجھیں گے؟
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی’’اصولی سیاست‘‘ کے مطابق آج کی حکومت سے سوال کررہے ہیںکہ چینی دو روپے سستے کرنے کے لئے کشمیر کاسودا کیا جارہا ہے ۔ مملکت خداداد پاکستان کے عوام کی یاداشت کمزور ہونے کے باعث سب کے مزے لگے ہوئے ہیں ۔نریندر مودی  رائیونڈ جاتی عمرہ آئے تو کشمیر کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا ،نہ ہی ایک سائیڈلائن میٹنگ میں تمام سفارتی اور غیر سفارتی عملے کو باہر نکال کر بات چیت کرنے سے نریندر مودی کا دھرم بھرشٹ ہوا اور نہ ہی شہدائے کشمیر کی روحوں کو دکھ پہنچا تو یہ ٹکے ٹکے کے مخالف لکھاریوں کو کیا تکلیف ہے  مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی ۔رہے پاکستان پیپلز پارٹی والے تو مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں کہ وہ مشرف دور سے  میثاق جمہوریت کے نام پر اپنا کندھا پاکستان مسلم لیگ(ن)کو پیش کرتے آرہے ہیں اب یکایک ایسا کیا ہوگیا کہ وہ مسلم لیگ کے چھابے میں ہاتھ ماررہے ہیں  ۔ نہیں سمجھے ۔   اسی کی دھائی کے بعد کی سیاسی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لین دین کے حوالے سے جملہ حقوق  شریف فیملی کے پاس  ہی رہے ہیں۔  سوائے مشرف کے این آر او کے جس کی قیمت بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جان دے کر چکائی۔  ویسے تو اس این آراو سے بھی بالواسطہ طور پر نوازشریف کوبھی  فائدہ ہوا  ،لیکن کہتے ہیں ناں کہ جو مزا چھجوکے چبارے…نہ بلخ نہ بخارے!معاملہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی سیٹ کا نہیں ہے ،بات اگلے انتخابات کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو لگتا ہے کہ وہ اگلے الیکشن سے بھی آوٹ ہونے جارہی ہیں ۔پوری سیاسی میراث بلکہ یوں کہیں پورے خاندان کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔پیپلز پارٹی کو عوام اور انکے ووٹرز کی نظر سے گرا ،کر مسلم لیگ(ن) ،بلاول  اور اسٹیبلشمنٹ  کے درمیان کسی ممکنہ مفاہمت کو روکنا چاہتی ہے۔دیکھتے ہیں کہ مقتدر حلقوں سے مفاہمت اور لین دین کی جو ڈیلر شپ پہلے صرف ایک خاندان کے پاس تھی ،پیپلز پارٹی خود کو اس کے قابل ثابت کرپاتی ہے کہ نہیں؟شہر میں دوسری برانچ کھلے گی  اور اگر کھلے گی تو کسے ملے گی؟
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت!

ای پیپر دی نیشن