اسلام آباد +سکھر(خبر نگار+نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ (ن) کے صدر، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئین شکن صدر کے خط کا جواب کیسے دیں۔ صدر، عمران خان اور ڈپٹی سپیکر نے آئین شکنی کی ہے۔ صدر مملکت عارف علوی سے نگراں وزیراعظم کی تقرری کیلئے موصول ہونے والے خط کے حوالے سے شہباز شریف نے مزید کہا ہے ہم تو آئین پرعمل کررہے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ صدر کے غیرآئینی خط کا جواب دیں۔ فل کورٹ میں آئین شکنوں کو سزا ملے۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں ہماری سپریم کورٹ پر ہیں۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران نیازی نے ڈپٹی سپیکر کو اپنا آلہ کار بنایا، انہوں نے جمہوریت کو مسخ کیا، سپریم کورٹ نے کہا کوئی ماورائے آئین اقدام نہ کیا جائے، ماورائے آئین اقدام تو عمران نیازی اٹھا چکا ہے، آئین کا دفاع ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے، کارکن جشن منا رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی، ہمیں آئین کو توڑے جانے پر زیادہ تشویش ہے، اگر کوئی بیرونی خط تھا تو 24 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیوں منظور کی گئی، عمران نیازی نے آئین شکنی کر کے سول مارشل لا نافذ کیا، جلد بازی میں رولنگ دی گئی، تحریک عدم اعتماد پر شکست کے خوف سے جمہوریت کو مسخ کیا گیا۔ جبکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کا جینا حرام کیا، ہم جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرنے والے ہیں، اپنی انا کی وجہ سے عمران نیازی نے یہ سب کیا، عدم اعتماد سے پہلے مستعفی ہو کر جمہوری عمل مکمل کیا جاسکتا تھا، عوام فیصلہ کریں عمران خان کی انا اہم یا آئین، معاملے پر فل کورٹ بنچ تشکیل د یا جائے۔ شہباز شریف نے متحدہ اپوزیشن رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی نے سویلین مارشل لا نافذ کیا۔ عمران خان اور اس کے حواریوں نے آئین کی واضح خلاف ورزی، آئین شکنی کی ہے کیوں کہ 24 مارچ کو سپیکر نے ایوان کی منشا کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد کو ملتوی کیا۔ اگر کوئی اعتراض تھا تو 24 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک کو leave گرانٹ کیوں کی۔ سپیکر تمام مراحل طے کرکے ضوابط کے مطابق کسی ایجنڈا آئٹم کو ایوان میں پیش کرواتا ہے وگرنہ اسے اپنے دفتر میں ہی مسترد کردیتا ہے۔ کسی قسم کا ردو بدل ممکن نہیں تھا اور تحریک کو ہر صورت گزشتہ روز ووٹنگ کے لیے پیش کیا جانا تھا۔ تلاوت کے بعد آناً فاناً ایک وزیر کو فلور دیا جنہوں نے نہ جانے کیا الا بلا کہا اور اس پر سپیکر نے ایک لکھا ہوا کاغذ پڑھا اور آرٹیکل 5 کا بہانہ بنا کر اس قرارداد کو ووٹنگ سے ہٹا دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمران نیازی اور ان کے حواری اس شکست کا سامنا نہیں کرسکتے تھے جو انہیں ہونے جارہی تھی اس لیے انہوں نے جمہوریت کو مسخ کیا، حالانکہ عدالت عظمی نے کہا کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے لیکن ماورائے آئین اقدام تو کل خود عمران نیازی اور صدر پاکستان اٹھا چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس خط کے بارے میں کہا جارہا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، دستاویزات بالکل مستند ہیں اس میں کوئی جھول نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے 16 مارچ کو ایک الوداعی عشائیہ دیا اور امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کیا گیا جبکہ وہ خط جو دفتر خارجہ کو موصول ہوا وہ 7 مارچ کو تھا۔ رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ 7 مارچ کو خط میں کہا گیا کہ ڈونلڈ لو سے ہونے والی بات چیت میں سامنے آئی کہ امریکہ پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کررہا ہے جبکہ 16 مارچ کو سفیر نے ان کی دعوت کی۔ انہوں نے کہا کہہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16 مارچ کی ٹویٹ میں ہمارے سفیر شکریہ ادا کررہے ہیں جبکہ خط 7 مارچ کا ہے یا یہ بات غلط ہے جو سفیر نے اپنی ٹویٹ میںکہی اور اگر بالفرض 7 مارچ کو کوئی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کوئی ایسی بات کی تھی تو دعوت اور شکریہ کس بات کا تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر دھمکی دی گئی تھی تو دعوت دینا یہ بڑی متضاد باتیں ہیں، اسے ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ سپیکر کے کل کے بھاشن کے مطابق تو ہم غدار ہوگئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے سازشی ذہن کے تحت آئین توڑا، صدر نے آئین توڑا، انہیں اسمبلیاں توڑنے کا کوئی حق نہیں تھا، سپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی۔ شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے آئین کی دفعہ62 کا حوالہ دیا کہ ایوان کی کارروائی پر کوئی نوٹس کوئی سماعت نہیں ہوسکتی، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ایوان کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جائیں تو سپیکر کو تحفظ حاصل ہوگا، پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ ضیاء اور مشرف کا مارشل لاء نہیں روک سکی۔ عدلیہ سے امید اور درخواست ہے کہ عمران خان کے مارشل لاء کو روکیں، ہماری درخواست سے عدلیہ سے کہتے ہیں آپ کے فیصلے سے ملک کی قسمت لکھی جائے گی۔ عمران نے جو یہ کام کیا ہے آپ کا فیصلہ یہ فیصلہ سنائے گا کہ کیا ہمارا آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے یا وہ اسلامی جمہوری وفاقی نظام کو جوڑنے والی دستاویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئین کا دفاع کرتے رہیں گے لیکن جو کل ہوا ہے اعلیٰ عدلیہ سے درخواست ہے کہ اس آئینی بحران کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔ فل کورٹ بنچ اس کا فیصلہ سنائے۔ ہمیں اگر پھانسی چڑھانا ہے تو چڑھا دیں لیکن عدم اعتماد پر ووٹنگ کرا دیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ہم قومی اسمبلی میں آئین نافذ نہیں کرسکتے تو ملک میں بھی نہیں کرسکتے۔ ہم سب خوش ہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی۔بلاول بھٹو نے دفتر خارجہ اور وزارت دفاع سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر واضح کریں کیا قومی سلامتی کمیٹی میں 197 ممبران کو غدار قرار دیا گیا؟۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم اپنی بغاوت کو جواز دینے کیلئے بیرونی سازش کا واویلا کر رہے ہیں۔ دفتر خارجہ یا وزارت دفاع سازش کے حوالے سے سرکاری مراسلات کو سامنے لا سکتے ہیں؟۔ سازش کو اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے بے نقاب ہونا چاہیے، عمران خان کی انا پاکستان سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو زرداری نے سکھر میں کارکنوں سے خطاب میں کہا ہے کہ حکومت جانے پر پورا ملک جشن منا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ یہ وہی عمران خان ہے جس نے معاشی بحران پیدا کیا اور مہنگائی کا سونامی کھڑا کر دیا۔ پی پی کے جیالوں کی جدوجہد کی وجہ سے نیا پاکستان ختم ہو گیا۔ عمران خان کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ ہم نے آج عمران خان سے حساب لے لیا ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کی سلیکشن نے ہر ادارے کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا۔ جب تک اس کو نہیں نکالیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ عمران اتنا بزدل ہے کہ مقابلہ کرنے کی بجائے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا اور بھاگتے بھاگتے آئین توڑ دیا۔ ہم اس کو پاکستان کے آئین و جمہوریت سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ عدلیہ جو بھی فیصلہ سنائے گی لیکن عمران خان نہیں بچ سکتا۔ عمران خان نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر پھاڑ دیا ہے۔ اعلٰی عدلیہ سلیکشن کی وجہ سے جو داغ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ پر لگا اسے دھو سکتی ہے۔ ہم کسی بھی وقت الیکشن کیلئے تیار ہیں۔ عمران خان کی طرح بھاگنے والے نہیں مقابلے کیلئے تیار ہیں۔ ہم جمہوری راستہ اپنانا چاہتے تھے۔ یہ مقابلہ کرنے سے بھی ڈرتا ہے۔ تین چار دن مزید وزیراعظم بننے کیلئے ’’کو‘‘ کر دیا۔ ہم اس کو پاکستان کی قسمت اور آئین کے ساتھ نہیں کھیلنے دیں گے۔ حکومت تو ختم ہو گئی لیکن اعلیٰ عدلیہ فیصلہ سنائے گی۔ اعلیٰ عدلیہ جو بھی فیصلہ سنائے گی لیکن عمران خان تو گیا۔ الیکٹورل ریفارمز کے بغیر جو بھی الیکشن ہوں گے متنازعہ ہوں گے، ہم نے اس کٹھ پتلی کو پارلیمان میں شکست دلوانی ہے۔کرپشن کے خلاف نعرہ لگانے والا تاریخ کا سب سے بڑا کرپٹ نکلا۔ کرپشن کیخلاف نعرہ لگاتا تھا لیکن اپنا کچن کرپشن کے پیسو ں سے چلاتا تھا۔ سکیورٹی ادارے جواب دیں کہ کیا ہم کرپٹ ہیں۔ عمران خان کہہ رہا ہے کہ ہم غدار ہیں کہ کیا 195 ارکان اسمبلی غدار ہیں۔ عمران خان نے اگر آئین توڑا ہے تو آرٹیکل 6 کا اطلاق ہونا چاہیے۔ عدالت سے امید ہے عمران خان کی ’’کو‘‘ کو ناکام بنائیں گے۔ اگر آئین پر عملدرآمد نہ ہوا تو الیکشن متنازعہ ہوں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے آئین پر عمل کرو پارلیمان بحال کرو۔