عثمان بزدار اگرچہ اب پنجاب کے وزیرِ اعلی نہیں رہے لیکن ان کا ذکر کرنا ضروری ہے، سب سے پہلی بات یہ کہ جس وقار کے ساتھ انہوں نے اپنا استعفی دیا، اسے تاریخ یاد رکھے گی ،اور یہ بھی کہ وہ ساڑھے تین سالوں میں تقریبا ہر وقت ہی تیار رہے کہ آج مستعفی ہوئے یا کل،یہ ان کی عمران خان کے ساتھ مکمل وفاداری کا ثبوت تھا کہ وہ اپنے عہدے یا کسی اور لالچ میں نہیں پڑے، اور جاتے جاتے یہ بھی کہہ گئے اگر عمران خان کہے تو سیاست بھی چھوڑ دیں۔غیرت اور وفاداری کی زندگی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور جسے ہوتی ہے وہ امر ہو جاتا ہے۔ تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو اس کے ساتھ مشکل اور کٹھن حالات میں چلنا اصل بندے کی شناخت ہے۔ پاکستانی سیاست کے حالات اگرچہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی کشیدہ اور متنازع رہے ہیں لیکن اب جو ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھا نہ سنا ،کسی وزیراعظم کو اس حد تک کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا،جتنا کہ وزیراعظم عمران خان کو۔، ن لیگ کو پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی کو ن لیگ کی مخالفت کا سامنا کرتے دیکھتے رہے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ میثاق جمہوریت پر بھی بڑی خوش اسلوبی سے کام ہوتا رہا اور اب یہ ہوا کہ عمران خان ایک طرف اور باقی سب سیاسی پارٹیاں دوسری طرف۔ اور تو اور عمران خان کے بہت قریبی ساتھی جہانگیر ترین علیم خان بھی انہیں چھوڑ گئے ان کے چھوڑنے کی وجہ ان کا نظر انداز کرنا بھی ہو سکتی ہے، ،وجہ جو بھی ہو لیکن ان کا وفاداریاں بدلنا کسی طور ٹھیک نہیں جو کسی ایک کا نہیں ہو سکتا وہ کسی دوسرے کا بھی نہیں ہو سکتا۔یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ میں یہاں شیخ رشید کا ذکر بھی ضرور کروں گی ،وہ پوری وفاداری کے ساتھ عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں تاریخ رقم کر رہے ہیں اگرچہ ان کی وفاداریاں بھی ماضی میں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
اپوزیشن عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے مہنگائی مارچ کرنے نکلی تھی ،عدم اعتماد کی تحریک بھی زوروں پر تھی ،عمران خان آج گیا تو کل گیا، ہر طرف یہی شور مچا ہوا تھا، اپنے اپنے لیڈروں کی حمایت میں عوام اتنے پرجوش ہیں کہ جیسے زندگی اور موت کا سوال ہو۔
میرے پیارے ملک میں آج تک کسی وزیراعظم کو اس کی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی اور نئے الیکشن کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے اور نتیجتاً عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے ملکی خزانے سے پیسے کا ضیاع ،ہر بار انتخابات پر حکومت اربوں روپے خرچ کرتی ہے ،لیکن مدت پوری نہیں ہوتی۔ تو اب کی دفعہ بھی عمران خان کا جانا پاکستانی عوام کے لیے کسی نئی حیرت کا باعث نہیں ہوا وزیراعظم عمران خان کے خلاف صرف ایک بات کو لے کے اپوزیشن پورا عرصہ روتی رہی ہے، مہنگائی مہنگائی اس کے علاوہ نہ تو کوئی بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ عمران خان نے ملکی خزانے کو لوٹا، کرپشن کی یا بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔اس قسم کے ناسور سے اس کا دامن پاک رہا ،وہ اپنی حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب رہا یہ بھی سب جانتے ہیں،جہاں جہاں اس نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا وہ سب پر بھی عیاں رہا۔ پورا عرصہ جس مافیا نے عمران خان کو کسی میدان میں سرخرو نہیں ہونے دیا ہر جگہ اپنا وار کیا ، کیا اب نئے آنے والے وزیراعظم اس مافیا کو کنڑول کر لیں گے؟ ان کے پاس کوئی خاص کیا گر ہو گا جس سے روزافزوںمہنگائی پہ قابو پایا جا سکے گا ۔باقی عوام کو عمران خان سے کوئی بغض نہیں تھا نہ ہے۔مغرب میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے بعد جس پاکستانی لیڈر کو پذیرائی نصیب ہوئی ہے وہ عمران خان ہیں امریکہ سے لے کر ہر یورپین ملک میں عمران خان کو شہرت اور پذیرائی حاصل رہی ہے اور یہ بھی کہ وہ کسی سے ڈرنے والا نہیں نہ ہی کسی کے رعب میں آنے والا ہے اگرچہ اس میں اسے نقصان ہی کیوں نہ ہو غیرت اور خودداری کی زندگی جینا ہر کسی کا کمال نہیں۔عمران خان کے جانے کے بعد بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کی تقدیر نہ بدلے، وہ مہنگائی کی اسی ذلت کو برداشت کریں، کوئی بھی چیز ان کی پہنچ میں نہ ہو کوئی ان کا پرسان حال نہ ہو ؟ پھر کسے مورد الزام ٹھہرائیں گے؟ مجھے تو اس وقت ڈاکٹر اختر شمار کا شعر یاد آرہا ہے
میں بہت جلد بھنور میں تجھے یاد آؤں گا
اتنا خوش باش نہ ہو مجھ سے کنارا کر کے