غیر قانونی اسلحہ کی خریدو فروخت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک اہم وجہ غیر قانونی اسلحے تک عام آدمی کی رسائی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سچ بھی ہے کیونکہ ملک کے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں قبائلی علاقوں میں تیار ہونیوالا اسلحہ بالخصوص چھوٹے ہتھیار بڑی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں ان چھوٹے ہتھیاروں کی قیمت 10 ہزار سے لیکر 35 ہزار روپے تک ہے،سٹریٹ کریمنلز وارداتوں کیلئے یہی سستادیسی ساختہ اسلحہ خریدتے ہیں تا کہ اگر انہیں گرفتاری سے بچنے کیلئے اسے پھینکنا بھی پڑے تو نقصان نہ ہو۔پاکستان بھر میں قتل و غارت کیساتھ ساتھ دیگر سنگین نوعیت کے بڑھتے ہوئے واقعات اور امن و امان کی بدترین صورتحال کا ذمہ دارہر دور کی حکومتی شخصیات ناجائز اسلحے کی بھرمار کو قرار تودیتی ہیں مگر ناجائز اسلحہ کی خریدو فروخت کو روکنے کے حوالے سے کسی بھی صاحب اقتدار کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو صرف زبانی کلامی دعووں اور کاغذی کارروائی سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کیجانب سے بلند بانگ دعووں کے ساتھ غیرقانونی اسلحہ کی ضبطی کی مہم شروع کی گئی تھی مگر ہر مہم کا نتیجہ مختلف مصلحتوں کا شکار ہونے کی وجہ سے صفر نکلا۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان بھر کے تمام بڑے اور چھوٹے شہر ناجائز اسلحہ کی خریدو فروخت کی منڈی بن گئے ہیںاور اگر ناجائز اسلحہ سے متعلقہ مقدمات کے اندراج، تفتیش کے عمل کاجائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کی جانیوالی ترامیم کے بعد ناجائز اسلحہ کی دفعہ 13،20،65 ناقابل ضمانت جرم ہیں لیکن تفتیش کے ناقص معیار اور پولیس کی ملی بھگت سے ان مقدمات میں فوری ضمانت ہوجانا بھی ناجائز اسلحہ کے سدباب میں بڑی رکاوٹ ہے، پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بھی ہر روز بڑی تعداد میں ناجائز اسلحہ کے مقدمات بناتی ہے لیکن ان کی پیروی نہیں کرتی کیونکہ ان کیسوں میں پولیس خود ہی مدعی ہوتی ہے اور ایک یا دو سپاہیوں کو گواہ بنایا جاتا ہے تو پھر عدالت میں پیروی نہیں کی جاتی ،پولیس ناقص انداز میں برآمدگی ڈالتی ہے اور پھر اکثر اسلحہ کو عدالت میں کیس پراپرٹی کے طور پر پیش بھی نہیں کیا جاتا۔پولیس نے کبھی تفتیش کے دوران یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ پکڑا گیا ناجائز اسلحہ کہاں سے خریدا گیا، اس ڈیلرتک کس نے پہنچایا اور یہ کہا ں تیار کیا گیا، بلکہ اب توانتہائی جدید غیر ملکی ساختہ پسٹل کی ’فرسٹ کاپی‘ خریداروں کو ’اوریجنل‘ کے طور پر فروخت کی جاتی ہے، جس کا انکشاف گزشتہ سال لاہور میںغیر قانونی اسلحہ کی دو فیکٹریوں کے پکڑے جانے پر ہوا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دیسی ساختہ اسلحہ کی تیاری ،فروخت پر سرکاری محکموں کا چیک اینڈ بیلنس نہایت کمزور ہے کیونکہ یہ اسلحہ مختلف اضلاع کے دور دراز علاقوں میں گھروں یا دکانوں میں قائم ورکشاپس میں تیار ہوتا ہے اور عالمی قوانین کے مطابق ان پر سیریل نمبر اور مخصوص ٹریسنگ کوڈ بھی کندہ نہیں کئے جاتے اور یوں یہ ’ناقابل شناخت ہتھیار‘ جرائم پیشہ عناصر‘ کے پسندیدہ ہوتے ہیں ،اب تو صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ کی خرید وفروغت کے ساتھ ساتھ اب غیر ملکی ساخت سے بنے ہوئے اسلحہ نما کھلونوں کی دھڑلے سے فروخت جاری ہے ، بچوں کی بڑی تعداد عید اور دیگر تہواروں پر گلی محلوں میںریکارڈ فروخت ہونیوالے (کھلونا نماہتھیاروں) سے کھیلنا پسند کرتی ہے، یہ کھلونہ نما پسٹل، رائفل ، کلاشنکوف اور دیگر ہتھیاروں کی مانند ہو بہو اصلی دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کہ ان میں پلاسٹک کے چھرّوں کو لوڈ کرنے کا طریقہ بھی اصلی ہتھیار کی ہی طرح ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معصوم بچوں کیلئے تفریح کے نام پر تیار ہونیوالے ان کھلونا نما پسٹل ، کلاشنکوف، رائفل سمیت دیگر کھلونہ نما ہتھیاروںکی تیاری پر سختی سے پابندی عائد کرے تاکہ بچوں میں یہ رحجان نہ بڑھنے پائے۔ فوری طور پر اس حوالے سے نئے اور سخت قوانین متعارف کرائے اور ان قوانین پر عمل کرتے ہوئے لائسنس جاری نہ کرے جبکہ ممنوعہ اسلحہ پر پابندی ہونی چاہیے، عوامی مقامات پر اسلحہ کی نمائش، تقاریب اور شادیوں میں ہوائی فائرنگ پر پابندی پر سختی سے عملدرآمد کروائے، ’آرمز کنٹرول پروگرام ‘ کے تحت غیر قانونی اسلحہ کی ضبطی کی مہم کا ازسرنو آغاز کروائے،تب ہی معاشرے میں قتل و غارت کیساتھ ساتھ دیگر سنگین نوعیت کے بڑھتے ہوئے واقعات میں کمی آئے گی اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی۔