اسلام آباد (نامہ نگار+ خصوصی رپورٹر) قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں کہا کہ ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لیے دو اسمبلیاں توڑی گئیں، اس اقدام کا مقصد ملک میں سیاسی تقسیم کی داغ بیل ڈالنا تھا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج جب اس عدالتی فیصلے کے ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سنا دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے لیکن حیرانگی کی بات ہے پھر ایک 6 رکنی بینچ بنادیا گیا جس نے اسی فیصلے کو ختم کرکے کارروائی بھی روک دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم انتخاب سے بھاگنے والے نہیں ہیں لیکن یہ تاثر کبھی نہیں جانا چاہیے جو تاثر پچھلے دور میں ایک ادارے کے بارے تھا کہ اس ادارے نے پولیٹیکل انجینئرنگ کا حصہ بن کے اس ملک کے سیاسی کلچر کو نقصان پہنچایا ہے۔ وزیرقانون نے کہا کہ چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آپ کے گھر میں تقسیم ہے، آپ کے عدل کے ایوان میں پاکستان کے عوام مختلف آراء سن رہے ہیں، اپنے گھر کو یکجا کریں اور اس معاملے کو فل کورٹ میں لے جائیں۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا کہ انتخابات کیس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں قرارداد پاس کی گئی کہ جو جج صاحبان سپریم کورٹ میں کیس سن رہے ہیں وہ انصاف کے پیمانے پر پورا نہیں اتر رہے، ان کا پس منظر اور تاریخ میں دیے گئے فیصلے وہ تاریخ میں روشن باب ہیں، ایک قرارداد پاس کرکے ایک پیغام بھیجا گیا کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں اور اس مقدمے کو فل کورٹ سنے اور فیصلہ دے۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے اجلاس کے دوران کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عدلیہ بحال تو ہوئی لیکن اسے ہم آزاد اور غیر جانبدار نہیں کروا سکے، اسی چکر میں خود دو بار جیل گیا اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ پانامہ بینچ!۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر عمران خان پہ عدم اعتماد ہوا ہے تو یہ کون سا غیر قانونی یا غیر آئینی راستہ اختیار کیا گیا ہے؟ ہم نے دھرنا تو نہیں دیا، اسلام آباد کا گھیرائو تو نہیں کیا۔ ہم میں سے کس نے جیل نہیں کاٹی؟۔ انہوں نے کہا کہ یاد کیجئے وہ دن جب عمران خان اسلام آباد آرہا تھا تو قابل احترام سپریم کورٹ سے فیصلہ دیا گیا کہ اس کو آنے دو۔ ساری اسلام آباد پولیس کو ایک طرف کردیا گیا۔ پھر کیا ہوا۔ انہوں نے آگ لگائی ہنگامہ کیا۔ اس بینچ نے عمران خان کو کیوں بلا کر نہیں پوچھا کہ تم نے کیپیٹل کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ میں بلا خوف تردید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جو فیصلہ آیا ہے اس خرابی کی بنیاد وہ غیر منصفانہ، غیر قانونی اور غیر آئینی فیصلہ ہے جو پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو نااہل کر کے کیا گیا کہ تمہارے ووٹ بھی نہیں گنے جائیں گے اور تمہیں نااہل بھی کیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد نے کہا کہ صرف کابینہ نہیں بلکہ اس ایوان کو متفقہ طور پر قرارداد منظور کر نی چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کو فوری طور پر سنا جائے، جس طر ح اس لاڈلے کے لیے عدالتیں کھلتی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسے فیصلے زندگی میں نہ پہلے کبھی دیکھے نہ آئندہ کبھی دیکھیں گے۔ تحریک انصاف کے رکن محسن لغاری نے کہا کہ چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا ،عدالت نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس کی کارروائی آج دن گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تاڑر نے پنجاب کے عام انتخابات کے بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران اور زیادہ سنگین ہو جائے گا۔ منگل کو فیصلہ صادر ہونے کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں، بار کونسلوں اور سول سوسائٹی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جس کی وجہ سے حالیہ آئینی اور سیاسی بحران مزید سنگین ہوجائے گا اور ملک مزید بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اعظم نزیر تارڈ نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ازخود نوٹس کیس 3 کے مقابلے میں 4 ججز کی اکثریت سے خارج ہوا اور 4 ججز نے کہا کہ ہم ان پٹیشنز کو 184 (3) کے دائرہ کار سے باہر سمجھتے ہیں۔