لندن (نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جیسے وزیراعظم کو دھکا دیا جاتا ہے اور ڈکٹیٹر کوگلے لگایا جاتا ہے، مجھے گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کہا گیا، دوہرے معیار سمجھ نہیں آ رہے، پاکستان کے اندر حکومتیں اب کس طرح چلاکریں گی؟۔ جیسا پاکستان میں ہورہا ہے کیا جنوبی ایشیا یا دنیا کے دیگرممالک میں ایسا ہوتا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ ہم 70 سال سے یہی دیکھ رہے ہیں، 1953ءسے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے آ رہے ہیں، 70 سالوں سے یہی تماشہ بار بار دیکھ رہے، منتخب حکومت کو نکال دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ کیا نظریہ ضرورت صرف ڈکٹیٹرز کےلئے ہوتا ہے؟۔ بار بار منتخب وزرائے اعظم کو چلتا کیا جاتا ہے، 3 ججز کا بینچ 4 ججز کے فیصلے کو نہیں مان رہا، یہ فیصلہ نہیں ون مین شو ہے، اس کیس کا فیصلہ 4 ججز کا پہلے ہی آ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تین ججز کے خلاف فیصلے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا چاہئے، یہ فیصلہ ہی ان ججز کے خلاف چارج شیٹ ہے، انہوں نے آئین ری رائٹ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے چیف جسٹس پاکستان کا وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، چیف الیکشن کمشنر اور پارلیمنٹ بن جائے۔ فل کورٹ کیوں نہیں بنائی گئی؟ تین ججزپر ہی اصرار کیوں؟۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں ہم ججز کا تحفظ کریں گے، ایسے ججز کا تحفظ کریں گے تو ادارے کا کیا کریں گے؟۔ قوم کو آپ کیا باتیں سنا رہے ہیں، ہمیں یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ قوم کو کہتے ہیں کہ جاگے یہ پاکستان کو برباد کررہے ہیں۔ ہمارے فل کورٹ کے مطالبہ پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟۔ فل کورٹ بنانے میں کیا امر مانع تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ دو ججز میرے خلاف ظالمانہ فیصلے کا حصہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کہتے ہیں یہ کالا فیصلہ تھا تو پھر کیا آپ نے اس کو سفید کیا؟۔ آپ انصاف پسند ہیں تو آپ کو یہ فل کورٹ بینچ بنانا چاہیے تھا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر اس طرح کے فیصلے آئیں گے تو ڈالر 500 روپے کا ہوجائے گا، اس طرح کے فیصلے ہوں گے تو سبزی، دالیں اور سب کچھ مہنگا ہوگا، ان فیصلوں سے اصل سزا پاکستان کے عوام کو مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا یہ فیصلہ نہیں ون مین شو ہے۔ نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ یہی فیصلہ ان ججز کے خلاف چارج شیٹ بنایا جائے۔ فل کورٹ کیوں نہیں بنائی گئی؟۔ تین ججز پر ہی اصرار کیوں؟۔ ایک جج وزیراعظم کو کہہ رہا ہے تمہیں پتا ہونا چاہئے اڈیالہ جیل میں کافی جگہ ہے۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے عمر بھر کیلئے نااہل کر دیا گیا۔ فل کورٹ بنانے میں کیا امر مانع تھا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پارلیمنٹ اور حکومتیں کیسے چلیں گی۔ یہ سب لاڈلے کے عشق میں ہو رہا ہے۔ پاکستان نے زندہ رہنا ہے تو پارلیمنٹ کو اپنا آپ منوانا ہوگا۔ ان فیصلوں سے اصل سزا پاکستان کے عوام کو مل رہی ہے۔ قانون کو پارلیمنٹ نے پاس کیا۔ اس کی بھی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے کسی اور ملک میں نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں یہ کالا فیصلہ تھا تو پھر کیا آپ نے اس کو سفید کیا؟۔ ریاست کو مفلوج کیا جا رہا ہے۔ ہم ایک انتہائی درد ناک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ اگر کوئی نظریہ ضرورت ہے بھی تو کبھی کسی وزیراعظم کیلئے بھی استعمال ہو جاتا۔ جو آئین توڑتے ہیں ان کو آئین توڑنے کے انعام میں ترمیم کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ کیا نظریہ ضرورت صرف آمروں کیلئے ہوتا ہے؟۔ بار بار منتخب وزیراعظم کو چلتا کیا جاتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ اگر اس طرح کے فیصلے آئیں گے تو ڈالر 500 روپے کا ہو جائے گا۔ پاکستانی قوم جاگے، ہوش کے ناخن لے۔ پاکستان کو نہ تباہ و برباد کیا جائے۔ پاکستانی قوم اس تباہی و بربادی کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ قوم کو آپ کیا باتیں سنا رہے ہیں۔ ہمیں یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ ہمارے فل کورٹ کے مطالبے پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟۔ فل کورٹ پر سب کا اتفاق تھا تو انہیں فل کورٹ بنانے پر کیا اعتراض تھا۔