سعودی حکومت پاکستان میں مشکلات سے دوچار افراد کی مدد میں مصروف ہیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن سے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ اس حوالے سے زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ وسائل سے محروم افراد تک زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاءپہچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ معیشت کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے وسائل میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ان حالات میں سعودی حکومت کی طرف سے عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر جاری کام سے یقینا نہ صرف حکومت کا بوجھ کم ہو گا بلکہ عام آدمی کی زندگی میں بھی آسانی پیدا ہو گی۔ زندگی آسان ہو گی تو ماحول بہتر ہو گا۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ مشکل حالات میں سعودی حکومت کی مدد پاکستان کے مضبوط اور دیرینہ تعلقات کا اظہار ہے۔
وزارتِ مذہبی امور نے پاکستان میں روزے داروں کے لیے خادمِ حرمین شریفین کی طرف سے افطار پروگرام کا افتتاح کیا پاکستان میں سعودی عرب کے سفارتخانے کے مذہبی اتاشی کی نمائندگی کرتے ہوئے وزارت مذہبی امور اور دعوت وارشاد نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ کی طرف سے افطار پروگرام، قرآن پاک اور کھجوروں کی تقسیم برائے سال 1444 ہجری کا افتتاح کیا۔ اسلام آباد میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خادم حرمین شریفین کے سفیر جناب نواف بن سعید المالکی کی زیرِ نگرانی اور عزت مآب پاکستانی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور اور سفارت خانے کے مذہبی اتاشی جناب عبد المجید مشعان العتیبی کی موجودگی میں اس پروگرام کا افتتاح ہوا۔
افتتاح کے موقع پر سفیر المالکی نے کہا کہ پاکستان میں مملکت کا سفارت خانہ ان پروگراموں کے افتتاح کو اپنے لیے قابلِ شرف سمجھتا ہے، جنھیں وزارت مذہبی امور اور دعوت وارشاد کے وزیر شیخ ڈاکٹر عبداللطیف بن عبدالعزیز آل الشیخ کی قیادت میں اپنے منسلکات کے ذریعے نافذ کرتی ہے۔
سفیر المالکی نے کہا کہ روزے داروں کے لیے افطار پروگرام، قرآن مجید اور کھجوروں کی تقسیم کرنے کا پروگرام ان منصوبوں کا حصہ ہے، جنھیں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے رمضان المبارک کے مہینے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں شروع کرنے کی ہدایات کیں۔ اس پروگرام کا مقصد غریب اور نادار خاندانوں کی، بیواو¿ں اور یتیموں کی دیکھ بھال کرنا، انھیں خوشی ومسرت کے مواقع فراہم کرنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ضروری اشیائے خورد ونوش فراہم کرتے ہوئے غریب اور انتہائی ضرورت مند خاندانوں کی تکالیف کو کم کرنے میں مو¿ثر طریقے سے تعاون کر کے ان کے لیے مدد کا ہاتھ بٹانا ہے۔
اسی طرح سفیر المالکی نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز حفظہما اللہ کی دانشمندانہ قیادت میں اس عظیم کام کے لیے شکریہ اور فخر کا اظہار کیا، جو خادم حرمین شریفین کے انسانی احساس کو مجسم صورت میں پیش کرتا ہے، اور یہ اس بلند پیغام پر مبنی ہے، جس کا سعودی عرب اسلامی معاشروں میں ہر جگہ علم بردار ہے۔
عزت مآب وزیر مفتی عبدالشکور نے خادم حرمین شریفین اور ولی عہد شہزادہ حفظہما اللہ کا وزیر اعظم شہباز شریف، حکومت اور پاکستان کے عوام کی جانب سے مملکت کی طرف سے پاکستان میں ضرورت مندوں کی مسلسل مدد پر شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے پاکستان میں مذہبی اتاشی کی طرف سے نمائندگی کرنے والی وزارت مذہبی امور اور دعوت وارشاد کی کوششوں کو سراہا، نیز ہر سال اس سالانہ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس کے مستفیدین کا انتخاب پیشہ ورانہ انداز میں کرنے کی تعریف کی تاکہ استفادہ کرنے والوں کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہو سکے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن مان لی گئی ہیں۔عمران خان نے سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط کیے پہلے معاہدہ کیا اور پھر معاہدے کہ خلاف ورزی کر کے آئی ایم ایف پروگرام کو معطل کیا، آئی ایم ایف پروگرام کےخلاف سازش کی گئی سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ ان دنوں پورے ملک میں دو ہی موضوع زیر بحث ہیں ایک تو عام انتخابات کے حوالے سے ہے اور دوسرا آئی ایم ایف پروگرام ہے۔ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف پروگرام کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اورحکومت کی پوری توانائیاں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر خرچ ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف انتخابات کے انعقاد کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی آئی ایم ایف سے بڑا پروگرام ہے۔ کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ تو کہیں نہ کہیں کسی مرحلے پر کسی بھی وقت اتفاق رائے ہو جائے گا لیکن انتخابات کے معاملے پر اتفاق رائے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں انتخابات کے معاملے پر حالات مزید خراب ضرور ہو سکتے ہیں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ حکومت مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض ضرور لے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھے کہ ہمیشہ قرض پر زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ قرض کیوں لینا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ تلاش کرنے اور اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومتی اخراجات کم کریں۔ ٹیکس نظام کو بہتر بنائیں اگر ہم ایٹمی طاقت حاصل کر سکتے ہیں تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ جب تک ہم اس لگن کے ساتھ کام نہیں کریں گے کامیابی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور ہم اپنی غذائی ضروریات بھی پوری نہ کر سکیں تو فیصلہ کرنے والوں کی صلاحیت اور اہلیت پر سوالات تو ہوں گے۔ جتنی محنت آئی ایم ایف کو قائل کرنے اور جتنی محنت عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے اتنی توجہ نظام کو بہتر کرنے پر کی جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کوئی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے معاملے میں تو صرف کمزور افراد کو ہی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔