سرکاری ملازمین کو دیا جانے والا اعزازیہ

سرکاری ملازمین کو دیا جانے والا اعزازیہ
 
سیّد ارتقاءاحمد زیدی irtiqa.z@gmail.com 
ارتقاءنامہ

 وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کام کرنے والے ایسے سرکاری ملازمین کو جو غیر معمولی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انعام کے طور پر تنخواہ کے علاوہ کچھ رقم دی جاتی ہے۔ عام طور پر رقم ان کی ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے برابر ہوتی ہے جو صرف ایک مرتبہ مالی سال کے اختتام پر دی جاتی ہے۔سرکاری ملازمین کی تعداد مسلسل بڑھنے کی وجہ سے اس مد میں مختص رقم کا حجم بھی بڑھتا رہتا ہے اور یہ اچھی خاصی خطیر رقم بن جاتی ہے۔
 سرکاری ملازمین کو اعزازیہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ ان سرکاری ملازمین جن کو اعزازیہ دیا جاتا ہے کہ نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تاکہ وہ بھی اس اعزازیہ کو حاصل کرنے کے لئے اہل ہو سکیں لیکن صد افسوس کہ اعزازیہ کے قوانین بنانے والے اعلیٰ افسروں نے خود ہی اِن قوانین کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے اعزازیہ دیئے جانے کا مقصد ختم ہوگیا بلکہ اس سے اور بڑے مسائل پیدا ہوگئے۔
 قوانین کے مطابق اعزازیہ ایسے ملازمین کو دیا جائے گا جو اپنے کام میں غیر معمولی کارکردگی دکھائیں گے اور جس سے یہ ثابت ہوگا کہ انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور جو کام انہوں نے سرانجام دیا ہے وہ ان کے سرکاری معمول کے مطابق روز مرہ کے کا موں کے علاوہ ہوگا۔ بدقسمی سے اس اعزازیہ کی تقسیم میں بھی بندربانٹ ہونی شروع ہوگئی اور بتدریج قوانین میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جو انتہائی نہ مناسب اور اعزازیہ دیئے جانے کے بنیادی مقصد سے متصادم تھیں۔ مثلاً تین وزارتوں خزانہ۔منصوبہ بندی اور اقتصادی اَمور کو اعزازیہ کا خاص طور پر حقدار قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ ان کے بجٹ میں لازمی طور پر مالی سال میں ایک مخصوص رقم اس مد میں فراہم کی جاتی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ وزارت خزانہ مالی سال کا بجٹ تیار کرتی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی پانچ سالہ منصوبہ بناتی ہے اور اقتصادی اَمور کی وزارت بیرونی ممالک سے ملنے والی امداد کا حساب کتاب رکھتی ہے۔ اعزازیہ دیئے جانے کے بنیادی قوانین کے مطابق اعزازیہ سرکاری ملازمین کو روزمرہ کے کام کی ادائیگی پر نہیں دیا جائے گا۔ 
 اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مالی سال کا بجٹ بناناوزارت خزانہ کے ملازمین۔ پانچ سالہ منصوبہ بنانا۔ وزارت منصوبہ بندی اور بیرونی امداد کے اعداد و شمار کا حساب رکھنا وزارت اقتصادی اَمور کے ملازمین کی سرکاری ذمہ داری کاحصہ نہیں؟ تو پھر انہوں نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا کہ تینوں وزارتوں کے تمام ملازمین چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک اعزازیہ کے حق دار بن گئے۔ وزارت خزانہ کے کچھ چنیدہ افسران کو ہر مالی سال میں ایک بنیادی تنخواہ کی بجائے دو۔ تین اور چار ماہ کی تنخواہ اعزازیہ کے طور پر دی جانے لگی۔ چونکہ وزارت خزانہ ہی مختلف وزارتوں کو دیئے جانے والے بجٹ کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس لئے یہ ان کی صوابدید پر منحصر تھا کہ اپنے لئے کتنی تنخواہوں کے برابر اعزازیہ مختص کرتی ہے۔ ایک مرتبہ یہ اعزازیہ پانچ بنیادی تنخواہوں کے برابر دیا گیا۔ اس لئے سرکاری ملازمین وزارت خزانہ میں تعیناتی کے لئے سفارشیں کراتے ہیں۔
 خزانہ۔ منصوبہ بندی اور اقتصادی اَمور کی وزارتوں کو اعزازیہ دیئے جانے کے بارے میں 1982ءمیں ہونے والا ایک دلچسپ واقعہ قارئین کے لئے پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے 7 مارچ 1982ءکو ڈپٹی چیئرمین پلائننگ کمیشن کا عہدہ سنبھالا۔ میں اس وقت اسسٹنٹ چیف کے طور پر تعینات تھا۔ چھٹا پانچ سالہ منصوبہ (1983-88) تیار ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے رسمی طور پر اس کی منظوری دینی تھی۔ وہ ہر کام کا سہرا اپنے سر لینے کے عادی تھے۔ میڈیا سے ان کے تعلقات ہمیشہ بے حد خوشگوار رہتے تھے کیونکہ وہ اکثر پریس کانفرنسوں کا انعقاد کرتے رہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری کا اعلان بہت زیادہ پبلسٹی کے ساتھ پلاننگ کمیشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کی جا نے والی ایک تقریب میں کیا۔ انہوں نے پلاننگ کمیشن کے ملازمین کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ ان کی انتھک محنت کے صلے میں تمام ملازمین کو دو بنیادی تنخواہوں کے برابر اعزازیہ دیا جائے گا۔ پانچ سالہ منصوبے کی تیاری میں وزارت خزانہ اور وزارت اقتصادی اَمور نے بھی پلاننگ کمیشن کی معاونت کی ہے اس لئے ان وزارتوں کے تمام ملازمین کو بھی دو تنخواہوں کے برابر اعزازیہ ملے گا۔ تقریب میں موجود اِن تینوں وزارتوں کے ملازمین نے بہت زیادہ تالیاں بجا کر ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور ان کی دریا دلی کا کئی دنوں تک چرچا رہا۔ڈاکٹر محبوب الحق نے صدر ضیائ الحق سے درخواست کی کہ وہ پلاننگ کمیشن میں آکر اپنے مبارک ہاتھوں سے پانچ سالہ منصوبے کا افتتاح کریں۔ چنانچہ یہ تقریب بھی پلاننگ کمیشن کے آڈیٹوریم میں منعقد کی گئی۔ صدر ضیائ الحق نے بہت فراخ دلی سے محبوب الحق کی کارکردگی کو سراہا اور اعلان کیا کہ پانچ سالہ منصوبے کے افتتاح کے مبارک موقع پر وہ تینوں وزارتوں کے تمام ملازمین کو ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے مساوی اعزازیہ کا اعلان کرتے ہیں اور یہ اعزازیہ ڈاکٹر محبوب الحق کی طرف سے دیئے جانے والے دو اعزازیوں کے علاوہ ہوگا۔ اس اعلان کے بعد تینوں وزارتوں کے ملازمین کے گھروں میں جشن کا ساسما تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان تینوں وزارتوں کے ان ملازمین کو بھی یہ اعزازیہ دیا گیا جن کے خلاف مختلف نوعیت کے انظباطی قوانین کے تحت کاروائیاں ہو رہی تھیں۔
 تو یہ ہے سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لئے دیئے جانے والے اعزازیہ کی کہانی کہ کس طرح اعزازیہ کے بنیادی مقصد کو بالا طاق رکھ کر سیاسی تشہیر کے لئے اس کا استعمال کیا گیا۔
 اَب جبکہ ملک بدترین مالی مشکلات سے دو چار ہے حکومت کو چاہیئے کہ اعزازیہ کے طور پر دی جانے والی رقم کی مدمیں کوئی رقم مختص نہ کرے۔

ای پیپر دی نیشن