بھٹو وزیراعظم ہاوس سے تختہ دار تک

Apr 05, 2023

قیوم نظامی

بھٹو وزیراعظم ہاوس سے تختہ دار تک

ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے پوری دنیا میں روشناس ہو چکے تھے- انہوں نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی دی - روس سے معاہدہ کر کے پاکستان میں پہلی سٹیل ملز لگائی اور پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی - عالم اسلام کے نامور لیڈروں سے مستحکم اور خوشگوار تعلقات استوار کیے-وہ سوشلسٹ نظریات کے حامل نظریاتی شخصیت تھے- 1960 کی دہائی سوشلزم کی دہائی تھی پاکستان کے طالب علم اور نوجوان لینن اور ماو¿زے تنگ کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے- امریکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے ناراض تھا لہٰذا اس نے جنرل ایوب خان پر دباو¿ ڈال بھٹو کو کابینہ سے نکلوا دیا- ذوالفقار علی بھٹو کشمیر کاز کے بڑے پرجوش وکیل تھے- تاشقند کے معاہدے کے بعد ان کے ایوب خان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے- ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سوشلسٹ رفقاءاورحامیوں کے مشورے سے نومبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی- انہوں نے 1970 کے انتخابات سے پہلے جو پارٹی منشور دیا وہ غریب اور محروم افراد کے دلوں کی دھڑکن بن گیا - انہوں نے اپنے انقلابی نظریاتی اور عوامی منشور میں تحریر کیا کہ پاکستان سے سرمایہ داری اور جاگیر داری کو ختم کر دیا جائے گا استحصالی نظام کو ختم کر دیا جائے گا تاکہ پاکستان کے ہر شہری کو مساوی مواقع اور مساوی مراعات حاصل ہو سکیں-ہر شہری کو روٹی کپڑا مکان تعلیم اور صحت کی بلا تفریق سہولتیں مہیا کی جائیں گی-نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے - کرپشن کے خاتمے کےلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے- مہنگائی کے خاتمے کےلئے مختلف تدابیر اختیار کی جائیں گی - بیوروکریسی اور نوکر شاہی کو عوام کا خادم بنایا جائے گا - پاکستان میں بیرونی مداخلت کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں گے اور سامراج کی مخالفت کی جائےگی-صحافت پر پابندیاں ختم کر دی جائیں گی- صوبوں کو صحیح معنوں میں خود مختار بنایا جائےگا -مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے بھرپور جدوجہد کی جائےگی- اقتدار میں غریب طبقات کو شامل کیا جائے گا- عوام کو ایک اچھی حکومت دی جائےگی- حکومت میں شامل افراد کی دیانت اور اہلیت شک و شبہ سے بالاتر ہوگی- ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے عوام کو یقین دلایا کہ پیپلز پارٹی کامیاب ہوکر کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول عالم اسلام کے اتحاد اور منصفانہ عالمی نظام کےلئے پوری جدوجہد کر ےگی-
یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے نوجوان ہر سڑک گلی اور محلے میں یہ نعرہ لگاتے تھے - " مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان " اس مقبول عوامی نعرے انقلابی منشور اور ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے تاریخی معجزہ کر دکھایا اور پی پی پی صرف تین سال کے عرصے میں پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور قومی اسمبلی سندھ اور پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی-دکھ اور اذیت کی بات یہ ہے کہ اس انقلابی انتخابی منشور کے بعد نصف صدی گزر گئی اور پی پی پی پانچ بار اقتدار میں آئی مگر عوام کا خواب آج تک پورا نہیں ہوسکا - یہ ہے وہ تاریخی سوال جس کا جواب تلاش کرنے کےلئے آج کے نوجوانوں کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے-تاریخ کا ریکارڈ شاہد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں تیز رفتاری کے ساتھ انقلابی اصلاحات نافذ کیں- چین کے عظیم لیڈروں ماو¿زے تنگ اور چو این لائی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں- ذوالفقار علی بھٹو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو مضبوط مستحکم فلاحی ریاست بنا دیں-سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا- ذوالفقار علی بھٹو نے الم ناک شکست کے باوجود شملہ میں اندرا گاندھی سے اعلیٰ معیار کی سفارت کاری کرکے نہ صرف مقبوضہ علاقہ واپس لے کر بلکہ نوے ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کروا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا - جو لوگ سیاسی بیانات کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو پر مشرقی پاکستان کو توڑنے کا الزام لگاتے ہیں- وہ جنرل ایوب خان کے دور کی ٹھوس اور مستند شہادتوں کو نظر انداز کرتے ہیں جن کے مطابق تسلیم کیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہے گا-اقتدار کے نشے میں سرمست جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کرکے اور بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کرکے پاکستان کو دو لخت کر دیا-عالم اسلام کا اتحاد اسلامی بنک اور مشترکہ اسلامی کرنسی کےلئے کوششیں 1973 کا متفقہ آئین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا جن کے مالی تعاون کے بغیر آج بھی پاکستان کا بجٹ نہیں بن سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وہ کارنامے ہیں جنہیں ان کے سیاسی مخالفین بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں- ذوالفقار علی بھٹو نے وسیع پیمانے پر صنعتوں کو نیشنلائز کیا اور اور ان کو بیوروکریسی کے حوالے کردیا جس کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا-
امریکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی قوم پرست پالیسیوں کی وجہ سے ناراض تھا - امریکہ کے سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت ناک مثال بنانے کی کھلی دھمکی بھی دی تھی-جنرل ضیاءالحق کے دست راست جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ امریکی سی آئی اے نے جنرل ضیاءالحق کو باقاعدہ تربیت دی تھی کہ وہ کس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو رام کرکے آرمی چیف بن سکتا ہے اور اس کے بعد مارشل لاء لگا کر پاکستان کا اقتدار سنبھال سکتا ہے-ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کوٹھڑی میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب" اگر مجھے قتل کیا گیا" میں ان محرکات کا جائزہ لیا ہے جو ان کی پھانسی کا سبب بنے-وہ لکھتے ہیں کہ گیارہ جنوری 1977 میں خفیہ ہاتھوں کے بارے میں مجھے رپورٹ ملنے لگی تھی اسی مہینے میں وفاقی وزیر رفیع رضا نے میرے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے ملاقات کی- انہوں نے مجھے بتایا کہ پی این اے وجود حاصل کر رہی ہے - انہوں نے بتایا کہ پی این اے کا صدر کون ہوگا اور دوسرے عہدیدار کون ہوں گے- انہوں نے مجھے اسکے ڈھانچے ڈیزائن حکمت عملی اور مقاصد کے بارے میں بتایا اور اپنے انکشافات کے آخر میں انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پاس صرف تین آپشنز ہیں - میں نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ کو بھول جاو¿ں انتخابات ملتوی کردوں انتہائی سنگین نتائج کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہو جاو¿ں- وہ اصرار کرتے رہے کہ میں ان پر ذرائع کے انکشاف کےلئے دباو¿ نہ ڈالوں - جانے سے پہلے انہوں نے مجھ سے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی میں نے کہا ضرور اس پر انہوں نے پوچھا آپ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں آپ اپنے اور اپنے خاندان کو بڑے خطرے میں کیوں ڈال رہے ہیں- میں نے انہیں بتایا کہ میں اس لئے کر رہا ہوں ہو کہ ایک فلاحی نظام قائم کرسکوں اپنے ملک کو توانا اور جدید بنا سکوں ان لوگوں کےلئے خوشیاں لا سکوں جو اس لفظ کے معنی سے بھی نا آشنا ہیں - میں نے اسے بتایا کہ آنسو ہمیشہ بہتے رہیں گے میں چاہتا ہوں کہ کم آنسو بہیں اور کم تلخی کے ساتھ بہیں - 1970 کی انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پر آٹھ قاتلانہ حملے ہوئے وہ دلیر اور نڈر لیڈر تھے وہ نہ جھکتے تھے نہ دبتے تھے اور جیل سے نہیں ڈرتے تھے انہوں نے بڑے حوصلے سے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں انہوں نے اپنا اقتدار حتیٰ کہ اپنی جان بچانے کےلئے بھی ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا کیونکہ ان کو ادراک تھا کہ ریاستی ادارے کمزور ہوں تو ریاست کمزور ہو جاتی ہے- ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی ٹیم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا- انکی شہادت کو 45 سال ہوگئے ہیں مگر وہ آج بھی کروڑوں عوام کے دلوں میں زندہ ہیں- ان کی آخری خواہش بھی یہی تھی کہ وہ ججوں اور جرنیلوں کے ہاتھوں مرنا پسند کریں گے مگر تاریخ میں رہنا چاہتے ہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاںکی تو کوئی بات نہیں 

مزیدخبریں