موسمیاتی تبدیلیوں کے مضمرات اور ہماری قیادتوں کی بے نیازی

موسمیاتی تبدیلیوں کے مضمرات اور ہماری قیادتوں کی بے نیازی
عالمی بنک نے پانی اور زراعت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات پر صوبائی حکومت کی مدد کیلئے سندھ واٹر اینڈ ایگری کلچر ٹرانسفارمیشن منصوبے پر عملدرآمد کیلئے اس میں تبدیلیوں کی تجویز پیش کی ہے تاکہ آبی سرگرمیوں میں کمی لائی جا سکے۔ یہ منصوبہ سندھ کی سیلاب اور خشک سالی سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر کریگا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ آج دنیا بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو دنیا میں رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیوں کے مابعد مضر اثرات کا شدت سے سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ داری ان ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے جو اپنی معیشت و صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے مختلف سائنسی تجربات کرتے رہتے ہیں۔ بے شک نظام قدرت تو اٹل ہے جس میں انسانی چھیڑ چھاڑ پر قدرت کی طرف سے ردعمل بھی فطری امر ہے۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جہاں گرمیوں کا دورانیہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور سردیوں کا دورانیہ بڑھ رہا ہے تو اسکے مضر اثرات فصلوں اور انسانی صحت پر بیک وقت مرتب ہو رہے ہیں۔ غیرمعمولی بارشیں اور خنکی فصلوں کی تباہی اور انکی پیداوار کم ہونے کا باعث بن رہی ہے اور نت نئے انسانی عوارض بھی لاحق ہو رہے ہیں جو انسانی آبادی میں بتدریج کمی کا باعث بن سکتے ہیں جیسا کہ کورونا وائرس کے جاری مختلف مراحل میں انسانی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آ بھی رہے ہیں۔ اسی طرح سیلاب اور زلزلے بھی ہر ذی روح کو بری طرح متاثر کررہے ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے خطے بالخصوص پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح بھی بتدریج نیچے جا رہی ہے جس کے حوالے سے آبی ماہرین کی متعدد رپورٹیں جاری کی جا چکی ہیں جن کے مطابق ہمیں آئندہ چند سال میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں پانی کے استعمال کی کسی ٹھوس منصوبہ بندی پر زور دیا جاتا ہے تاکہ پانی کے ضیاع میں کمی کی جاسکے۔ آج درحقیقت ہمیں اس سنگین ایشو کی جانب فوری توجہ دینے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے آنیوالے خطرات سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے ٹھوس اور جامع حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی بنک سندھ کی حد تک تو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کم کرنے کی منصوبہ بندی میں معاونت کر رہا ہے۔ مگر یہ تو ملک بھر کا مسئلہ ہے جس کیلئے قومی پالیسی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قومی سیاسی قائدین اور متعلقہ اداروں کی قیادتوں کو اپنے اپنے مفادات کے تحت باہم دست و گریباں ہونے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ملک اور قوم کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق ہونیوالے خطرات کے آگے بند باندھنے کیلئے غوروفکر کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہماری ہی نہیں‘ ہماری آنیوالی نسلوں کی سلامتی کا بھی سوال ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن