بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
1983 کے دوران وفاقی محتسب کا ادارہ معرض وجود میں آیا اس وقت ہم میٹرک کی تیاری میں مصروف تھے ایک شام ہمارے گھر خالہ جان تشریف لائیں ،ہم بھی والدین کے ساتھ شریک گفتگو تھے باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ خالو محترم کی اسلام آباد میں نوکری ہے پوچھنے پر بتایا کہ کوئی نیا محکمہ وفاقی محتسب کے نام بنایا گیا ہے سے جسے خالو نے جوائن کر لیا ہے ۔ وفاقی محتسب کا نام سن لیا لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ محکمے کا کام کیا ہے؟ ایک دفعہ لاہور سے اسلام آباد آیا تو گھومتے گھامتے زیرو پوائنٹ سے آبپارہ کی طرف مڑے تو کونے پر ایک لمبی سی سفید رنگ کی بلڈنگ نظر آئی جس کے گیٹ پر سبز اور سفید رنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا وفاقی محتسب لکھا تھا۔ عجیب سی خوشی ہوئی ۔ خالو چوہدری ریاست علی ادارے میں بطور ڈی جی اور جسٹس سردار اقبال خان کے بطور چیرمین بننے کے بعد عہدہ سنبھال چکے تھے چوہدری ریاست علی اس سے پہلے بطور ڈی جی پی آر ویسٹ پاکستان بھی کام کر چکے تھے اس کے ساتھ ساتھ والد محترم سے کبھی نہ کبھی جسٹس اقبال صاحب کا ذکر بھی سننے میں آیا کرتا تھا کہ لاہور کی ادبی محفلوں میں والد محترم کی کہیں نہ کہیں جسٹس صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں یہ تو پہلا تعارف تھا دوسرا تعارف ذاتی تجربے کی بنیاد پر ہوا کہ ہم نے وفاقی اردو یونیورسٹی سے ایم فل کیا اتفاق سے میں نے اور میرے ایک دوست نے تھیسس لکھنے کا ارادہ کر لیا جبکہ باقی کلاس نے تھیسس لکھنے کی بجائے سبجیکٹ لینے کو ترجیح دی اس طرح باقی لوگ تو سبجیکٹ کا امتحان دے کر ایم فل کی ڈگری لے کر گھر چلے گئے مگر تھیسس لکھنے کی میری ضد آڑے آ گئی لہذا میں نے تھیسس لکھ کر یونیورسٹی میں جمع کروا دیا مگر اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد کی کہانیاں سننے کو ملتی آخر کار میں وفاقی اردو یونیورسٹی کے خلاف وفاقی محتسب میں کیس کر دیا تیز ترین انصاف کی رفتار دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تیسری دفعہ حاضری پر وفاقی محتسب نے یونیورسٹی کو معاملہ فوری طور پر حل کرنے کا آرڈر کر دیا پھر تیسرا تعارف یہ ہوا کہ میں کسی کام سے وفاقی محتسب دفتر جا رہا تھا کہ اس وقت اتفاق سے والد محترم سے ملاقات ہو گئی تو ان کے پوچھنے پر بتایا کہ ایک کام سے وفاقی محتسب کے دفتر جا رہا ہوں تو ابا جی محترم (مرحوم ڈاکٹر بشیر احمد گورایا )نے فوری حکمنامہ جاری کیا اگر وفاقی محتسب کے دفتر جا رہے ہو تو ڈاکٹر انعام سے ضرور ملنا ۔ عرض کی جی بلکل ضرور مگر انکل توبک فاو¿نڈیشن میں ہوتے ہیں مجھے اس وقت نہیں پتہ تھا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید وفاقی محتسب میں تشریف لا چکے ہیں والد محترم سے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی چلو ان سے ملاقات ہو جائے گی چھپن ستاون سال کی عمر میں تقریبا ڈاکٹرانعام سے پچاس سال کا واسطہ ہے کیونکہ والد محترم کا ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا دوستی کا سفر تقریبا پچاس سال پر آ کر اس لئے ختم ہو گیا کہ والد محترم پچھلے سال ہم سب کے ساتھ ہی اچانک تمام رشتے ختم کر کے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے بات کسی اور طرف نکلنا شروع ہو گئی اپنے موضوع پر آتا ہوں کہ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر انعام صاحب وفاقی محتسب میں ایڈوائزر کے طور پر عہدہ سنبھال چکے ہیں اور میں بچپن سے ہی جانتا ہوں کہ ڈاکٹر انعام جس شخص کا نام ہے کام کر نے کا اس کو جنون ہے واقعی ایسی شخصیت کہ شاعری وہ کر رہے تحقیقی کام وہ کر رہے ہیں مشاعرے وہ کر رہے ہیں دوست احباب کو وقت وہ دے رہے ہیں تو میں حیران تھا کہ جس ادارے کو اب انہوں نے جوائن کیا ہے یہ تو بہت ڈیمانڈنگ ہے سوچا دیکھتے ہیں پھر ایک دن دوبارہ وفاقی محتسب جا رہا تھا تو ڈاکٹر صاحب کو فون کیا کہ انکل میں وفاقی محتسب کے دفتر آ رہا ہوں تو ملاقات ہو سکتی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے فوری پوچھا کہ کیوں نہیں ہو سکتی خیر میں اپنے کام سے فارغ ہو کر ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہو گیا وہ ملنے کے بعد آفس ٹیبل کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ گئے میں ان سامنے بیٹھ گیا تو ٹیبل پر میری جس چیز پر نظر پڑی تو حیران رہ گیا کہ ایک چھوٹی سی لکڑی کی تختی پر لکھا تھا(میری تو خیر ہے مگر آپ کا وقت بہت قیمتی ہے) یہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہاں پر گپ شپ مارنے کی گنجائش ذرا کم ہی ہے خیر اس کے بعد میں نے ڈیوٹی کے بارے میں تھوڑا بہت استفسار کیا تو ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ میں یہاں پر اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات کو دیکھتا ہوں بہت حیران ہوا کہ وفاقی محتسب کے دفتر میں اوورسیز پاکستانیوں کا کیا کام لیکن جب میں نے تفصیل سنی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وفاقی محتسب نے کتنا بڑا کام کر دیا ہے وہ اس لئے کہ میں نے جب انٹرنیشنل سفر شروع کیا تو اس وقت پورے پاکستان میں صرف کراچی ہی واحد انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہوتا تھا اس کے بعد اسلام آباد پھر لاہور اب تو یہ حالت ہے کہ سمبڑیال جو سیالکوٹ کی ایک تحصیل ہے وہاں پر بھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے غرض کہ جب بھی بیچارے پاکستانی، پاکستان آتے تھے تو ایئرپورٹ پر لٹنے کے علاوہ رل بھی جاتے تھے کوئی پرسان حال نہیں تھا اب ان اوورسیز پاکستانیوں کے لئے اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو فوری انصاف کا وفاقی محتسب کا ادارہ ایئرپورٹ پر ہی موجود ہے جو کہ ڈاکٹر انعام کے ویڑن اور کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ موجودہ چیرمین صاحب کی بہت بڑی شراکت داری ہے کہ انہوں نے ایک مظبوط ٹیم بنا رکھی ہے جو ان کے ویڑن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے ۔ وفاقی محتسب کا ادارہ شروع سے ہی بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہا اور خاص طور اداروں کے اندر جو ملازمین کے ساتھ بعض اوقات زیادتیاں ہو جاتی ان کے لئے فوری اور سستے انصاف کا واحد ذریعہ ہے جبکہ وفاقی محتسب انصاف تک آسان رسائی کا ایسا ادارہ ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عوام الناس کی محتسب(Ombudsman) تک آسان رسائی ان اداروں کی بنیادی خصوصیت قرار دی گئی ہے۔ اسی نقطہ نگاہ سے وفاقی محتسب کا ادارہ آئین کے آرٹیکل 37(d) کے مطابق عوام الناس کو عملی طور پر ان کے گھر کی دہلیز پر مفت اور فوری انصاف فراہم کر رہا ہے۔ وفاقی محتسب غریب لوگوں کی عدالت کے طو ر پر معروف ہے جو سرکاری اداروں کی بد انتظامی کی شکایات کے خلاف بجا طور پر انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر سب کو یکساں، جلد اور سستا انصاف فراہم کر رہا ہے۔وفاقی محتسب پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جو بد انتظامی کی شکایات کے فوری ازالے کے لئے 24 جنوری 1983 کو ایک صدارتی حکم کے تحت قائم کیا گیا۔
وفاقی محتسب کے قیام کے صدارتی حکم میں بد انتظامی کے زمرے میں وہ تمام فیصلے، اعمال اور سفارشات شامل ہیں جو قانون اور قواعد وضوابط کے خلا ف ہوں یا بلا وجہ، بے بنیاد، اقربا پروری یا جانبدارانہ امور پر مشتمل ہوں یا اختیارات سے تجاوز یا ان کے غلط استعمال پر مبنی ہوں جن میں بد عنوانی، رشوت خوری، اقرباء پروری، جانبداری اور انتظامی زیادتی یا فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی، بے توجہی، بلا وجہ تاخیر اور نااہلی وغیرہ شا مل ہیں۔گو یا بدانتظامی و بد عنوانی کا خاتمہ درحقیقت انسا نی حقوق کے تحفظ، گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی تک پہنچنے کا بنیادی ذریعہ ہے اور بد انتظامی کو روکنے کا دوسرا مطلب ہے انسانی حقوق کا احترام، اچھے حکو متی انتظامات کا اہتمام اور قانون کی حکمرانی کا قیام۔ بد انتظامی اور حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔دونوں اقربا پروری اور امتیازی سلوک کی گود میں پرورش پاتے ہیں، جس کے نتیجے میں سب سے پہلے میرٹ کا قتل ہو تا ہے۔ وفاقی محتسب 41 سال کے دوران اکیس لا کھ سے زائد شکایات کا ازالہ کر چکا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاقی محتسب سے انصاف حاصل کر نے کے لئے نہ کسی وکیل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی فیس ہے۔ شکایت کنندگان کو بالکل مفت انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ وفاقی محتسب کے قیام کے آغاز میں صرف چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں چار علاقائی دفاتر تھے، اب اس کے 18 علاقائی دفاتر اور چار شکایات مرکز ملک کے مختلف حصوں میں کام کر رہے ہیں جب کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جلد ہی علاقائی دفاتر کھولنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا دنیا میں جن ممالک میں پاکستانیوں کی اکثریت ہے ان ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانوں میں بھی ضرور وفاقی محتسب کے کاو¿نٹر بننے چاہئیں۔ سال 2023 میں وفاقی محتسب میں 194,106 شکایات موصول ہوئیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ تھیں جب کہ اس سال 193,030 شکایات کے فیصلے کئے گئے جو اس سے پہلے سال کے مقا بلے میں 22 فیصد زیادہ تھے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے وفاقی محتسب تک رسائی بہت آسان ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شکایات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2023 میں آن لائن شکایات میں 2022 کی نسبت 47 فیصد اضافہ ہوا۔آج موبائل فون کی سہولت چونکہ ہر فرد کو میسر ہے اور اس کا استعمال بھی آسان ہے اس لئے موبائل ایپ اور واٹس ایپ کے ذریعے آ نے والی شکایات میں خاطر خواہ اضا فہ ہوا ہے۔ مز ید برآں وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر اردو میں بھی معلو مات کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے وفاقی محتسب کے با رے میں انگریزی سے ناواقف طبقے میں بھی آ گاہی پیدا ہوئی اور انہیں وفاقی محتسب تک اپنی شکایات پہنچانے کا موقع ملا۔ علاوہ ازیں وفاقی محتسب میں شکایت کنندگان کو یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ وہ سماعت میں آن لائن بھی شامل ہو سکتے ہیں اور انہیں اس مقصد کے لئے دفتر آنا ضروری نہیں۔وفاقی محتسب کی ہیلپ لائن نمبر:1055 کے ذریعے عوام الناس ہر قسم کی معلومات اور اپنی شکایات کے با رے میں تازہ ترین صورتحال بھی معلو م کر سکتے ہیں۔وفاقی محتسب میں عوام الناس کو گھر کے قر یب انصاف فراہم کر نے کے لئے مختلف پروگرام جاری ہیں۔ جنوری 2016 میں Outreach Complaint Resolution(OCR) کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت وفاقی محتسب کے افسران تحصیل اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں خود جا کر متعلقہ اداروں کے افسران اور ضلعی انتظا میہ کو بلا کر شکایات کی سماعت کرتے ہیں اور اس سارے عمل میں میڈیا کو بھی شامل کیا جاتا ہے جس سے عوام الناس میں وفاقی محتسب کے بارے میں آگاہی میں اضا فہ ہوتا ہے۔ او سی آر کے اس پروگرام کو مزید آ گے بڑھاتے ہوئے وفاقی محتسب خود اور ان کے مجاز افسران ملک کے دور دراز علا قوں میں کھلی کچہریاں بھی لگاتے ہیں، جہاں ہر ایک کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی شکایات کے ساتھ ساتھ عوامی اہمیت کے مسا ئل اٹھا کر انصاف حاصل کر یں۔ 2023 میں علاقائی دفاتر بہاولپور، ڈیرہ اسماعیل خان، گوجرا نوالہ، حیدر آباد، لاہور، ملتان اور سکھر کے افسران نے دور دراز علا قوں میں خود جاکر او سی آر پروگرام کے تحت دورے کر کے 3149 شکایات نمٹائیں جب کہ سال 2023 میں 19 دور دراز اضلاع بشمول کرک، ہنگو، بنوں، کوہلو، تربت، شانگلہ اور درگئی میں کھلی کچہریاں لگائی گئیں۔ او سی آر کے دورہ جات اور کھلی کچہری عوام الناس کی شکایات کے فوری اور بلا رکاوٹ ازالے میں بہت مفید ثابت ہو رہی ہیں اور ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے عوام کے لئے اور بھی مفید ہیں کیو نکہ انصاف کے حصول تک ان کی رسائی قدرے مشکل ہو تی ہے۔ او سی آر دوروں میں میڈ یا کی شمولیت سے اس کی اہمیت اور بھی بڑ ھ جاتی ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے اندر وفاقی محتسب کے با رے میں آگاہی میں اضا فہ ہو تا ہے اور وہ وفاقی اداروں کے خلاف وفاقی محتسب میں اپنی شکایات کر کے کسی وکیل اور فیس کے بغیر جلد اور مفت انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔