وزیر اعلیٰ مریم نواز اور درپیش چیلنجز 

Apr 05, 2024

میاں محمود

زاویے.... میاں محمود
Myan.Mehmood @gmail.com

مریم نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبائی وزارت اعلی پنجاب کا منصب سنھبال لیا ، وہ آزادی کے بعد پنجاب کی پہلی خاتون حکمران ہیں جنہیں یہ اعلی منصب عطا ہوا ہے۔عمومی طور پر وزارت اعلی پنجاب کے منصب کو سیاست میں طاقت کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے لیکن میاں شہباز شریف نے اسے بجا طور پر خادم اعلی کے عہدے سے تعبیر کیا تھا، کیونکہ پنجاب کی حکمرانی، دراصل کانٹوں کا سیج ہے۔ مریم نواز شریف کو حکمرانی کے لئے انتہائی مشکل پنجاب ملا ہے اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ انہیں قرضوں میں جکڑا ہوا پنجاب ملا ہے۔ یہ منصب، کانٹوں کی سیج ہے۔ مریم نواز شریف حکومت کو جہاں اور بہت سے چیلنجز در پیش ہوں گے۔ وہاں قرضوں کی ادائیگی سب سے بڑا چیلنج ہوگی۔ سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے، 13 کروڑ لوگوں کو مسائل کو حل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے مفر ناممکن ہے کہ پنجاب کی ساڑھے چار ہزار ارب روپے کی جی ڈی پی میں قرضوں کا حجم تقریبا پونے چار فیصد ہے اور مریم نواز شریف حکومت نے رواں برس میں 153 ارب روپے کے قرضے ادا کرنا ہیں۔
تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، پنجاب کی مجموعی جی ڈی پی ساڑھے چار ہزار ارب روپے ہے جبکہ قرضوں کا مجموعی بوجھ 1720 ارب روپے ہے۔ رواں مالی سال مریم نواز شریف کو کم از کم 153 ارب روپے کے قرضے ادا کرنا ہیں۔ 1700 ارب روپے کے قرضے وفاقی حکومت نے پنجاب میں ترقی کاموں کے لئے وصول کئے جبکہ تقریبا ڈھائی ارب روپے ایک سابق حکومت نے اندرونی وسائل سے حاصل کئے یہ قرضے، پجاب کی جی ڈی پی کا پونے 4 فیصد کے بنتے ہیںجس میں ملکی قرضوں کا حجم 0.2 فیصد اور غیر ملکی قرضوں کا حجم 3.5 فیصد قرضے غیر ملکی ذرائع سے حاصل کئے گئے۔ جن چین کا حصہ 22 فیصد، عالمی اداروں کا 35 فیصد، ایشیائی ترقیاتی بینک کا 22 فیصدہے۔ مزید 17 فیصد قرضے نٹرنیشنل بینک فارری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کو ادا کرنا پڑیں گے۔ ڈالر کے شکل میں 72 فیصد اور اسپیشل ڈرائنگ رائٹس کی صورت میں ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ کو 20 فیصد ادائیگی لازمی ہے۔
سابق حکومت پنجاب کے مالی وسائل میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی۔ مریم نواز حکومت کو 25 ڈھائی ہزار ارب روپے وفاق سے حاصل ملیں گے، پنجاب کی معیشت کادارومدار وفاق سے منتقل ہونے والے وسائل پر ہوتاہے۔ رواں مالی سال 2457 ارب روپے ملنے کی امید ہے۔ اگلے مالی سال میں وفاق سے 2800 ارب روپے کے مالی و سائل کرنا۔ مریم نواز حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ دوسرا چیلنج صوبے کے مالی وسائل یعنی ٹیکسوں اور نان ٹیکس آمدنی میں اضافے سے متعلق ہوگا۔ سابقہ ادوار میں غازی بھروتہ ڈیم کی رائلٹی نہ مل سکی۔ بورڈ آف ریونیو کی کارکردگی بھی سابقہ ادوار میں اچھی نہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ریونیو کی آمدنی گراوٹ کا شکار رہی۔ تاہم محسن نقوی حکومت نے رواخراجات میں تقریبا 112 ارب روپے کی کمی کرکے پنجاب کے اخراجات میں کسی حد تک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔112 ارب روپے کی بچت سے ترقیاتی کاموں کیلئے کافی کمشن مل گیا۔ رواں سال کے بجٹ میں پرائمری تعلیم کےلئے 60 ارب اور ہائر ایجوکیشن کیلئے 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں صحت کے لئے 161 ارب اور پنجاب کے دیگر حصوں کیلئے الگ الگ فنڈز رکھے گئے۔ میری رائے میں اس وقت صوبے کی سب سے اہم ضرورت تمام اداروں کے مابین باہمی ربط میں کمی کو دور کرنا ہے۔ مریم نواز شریف ، اپنے وسیع تجربے کے پیش نظر مختلف محکموں اور اداروں کے مابین پانے جانے والی ربط کی کمی کو دور کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
زرعی شعبے میں جدت کیلئے 41 ارب، انرجی سیکٹر کیلئے 11 ارب اور کامرس کیلئے 32 ارب کا بہترین استعمال صوبے میں توانائی اور زرعی شعبوں میں انقلاب لا سکتا ہے۔ پنجاب کی فرسٹ لیڈی (چیف منسٹر) خود کو رول ماڈل بنا سکتی ہیں۔ ان کی اولین ترجیح تعلیم عام کرنا اور نوجوانوں کیلئے سٹارٹ آپس جیسے منصوبے شروع کرنا ہے۔ نوجوانوں کیلئے جتنے پروگرام بنائے جا سکتے ہیں، بنائے جائیں، یہ وقت کا تقاضا ہیں ۔ مگر لوگوں کو اکٹھا کرکے، سب کی رائے لینا بہتر قدم ہوگا۔ کسی بھی منصوبے پر سیر حاصل گفتگو کرنے سے غلطی کے امکانات کم ہو جائیں گے، اب ہمارے پاس غلطی کرنے کے مواقع ختم ہو چکے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس بلانا بہت ضروری ہو گیا۔ جب تک اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر کام کا آغاز نہیں کریں گے۔ اس وقت تک بہتری نہیں آسکی۔ مشاورت کے ذریعے ترقی کا یہ عمل سطح تک جاتا پڑے گا۔ ہمارا صوبہ پہلے ہی ادھورے منصوبوں کا قبرستان بن چکا ہے، اب نئے ترقیاتی پروگرام کو فوری طور پر منجمند کر دینا چاہیے۔ صرف عوامی نوعیت/ اہمیت کے حامل منصوبے ہی جاری رکھے جائیں۔ ضلعی سطح پر مشاورت کے ذریعے منصوبوں کو جاری یا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ لوگوں کو سیلف روز گار کی طرف لے کے جانا ہوگا۔ اور دوسرا جو سب سے امپورٹمنٹ ایشو ہے اس وقت وہ ہے اپ کا کالاٹمنٹ چینج اپ نے اپنے صوبے کے اندر گرین پروگرام جو ہے وہ اینشنو شروع کرنے ہونگے گرین پروگرامز کے اوپر اگین میرا فوکس یہ ایک سیٹک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ساتھ ایک پورا لے آﺅٹ پروگرام دیا جائے جو لوگوں کو پتہ ہو کہ گورنمنٹ یہ کرنے جارہی ہے اس پروگرام کی تشہیر کی جائے۔ بتایا جائے کہ میرا وزثرن یہ ہے کہ پنجاب کو مجھے گرین بنانا ہے پنجاب کو پولیوشن فری بنانا ہے۔ اس کے اوپر زیروٹالنس ہوگی جس طرح میں نے ایجوکیشن کے اوپر بھی اوپر بھی او پر کہا کہ اس کے اوپر بھی زیروٹارنرز ہو میرٹ کو ترجیح دی جائے جابز کیلئے بھی میڑٹس کو ترجیح تمام اسٹیک ہولڈرز اور بزنس کمیونٹی کے علاوہ عوامی رائے لینے کے بعد منصوبوں کی تشہیر کی جائے۔ سخت مسابقت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بچت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ صفر بدعنوانی بھی ایک اہم ایشو ہے۔ شفافیت کے ذریعے بد عنوانی کو روکا جا سکتا ہے۔ بے لگام اختیارات کو کنٹرول کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے عوام کی فلاح بہبود کیلئے کیمونٹی ویلفیئر کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ترقی کیلئے جہاں ضروری ہو وہاں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشن کے سے بھی منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں ۔ دنیا نے اسی ماڈل پر ترقی کی ہے۔ اس سمت میں پنجاب رول ماڈل بن جا سکتا ہے۔ مریم نواز شریف، ایک رول ماڈل بن سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو انوالو کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ کمنٹ انوالو و ایجوکیشن اس کو جو ہے ایک مربوط طریقے سے کام کیا جانا چاہیے اور اسی کے اوپر ہیلتھ جو ہے ہیلتھ سیکٹرز میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے ساتھ ہاسپٹلز پرائیویٹ سیکٹر کو بنانے کی اوپن اجازت ہو ڈیوٹی فری مشنری ہو اور ہر ضلعی تحصیل لیول کے اوپر باقاعدہ گورنمنٹ پلاٹ دے ہاسپٹلز کیلئے اور تاکہ پرائیویٹ سیکٹر جو ہے اس کے پروہاسپٹل بنائے آﺅٹ اف و ڈیزئن گورنمنٹ کا کام نہیں ہے ہاسپٹلز کو چلانا ہے گورنمنٹ ک اپ ایجوکیشن دیکھ لیں اس وقت ٹاپ سے ٹاپ ایجوکشن پرائیویٹ سیکٹر دے رہا ہے۔ اسی طرح اپ کو تمام پاسپٹلز کو اپرائےوٹائز کرنا چاہیے اور تاکہ گورنمنٹ اس کے اندر سے نکل جائے اور پرائیویٹ سیکٹر پبلک پارٹنر شپ کے اوپر ہاسپٹلز تحصیل لیول پہ اوپنلی بنانے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے اور پر تحصیل لیول ڈسٹرکٹ لیول اوپر تاکہ جہاں جہاں اپ کے ہاسپٹلز کی کمی ہے اس کی نشاندہی کرکے پرائیویٹ سیکٹر کو اپ کنگ کی جائے پرائیویٹ سیکٹر کو کانفیڈنس دے دی جائے۔ پرائیویٹ سیکٹر یز ملک کی ترقی میں اوپر اسکتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو کانفیڈنس عزت اور وقار کے ساتھ آگے لے کے چلیں گے تو ملک جو ہے ترقی کرے گا۔ اپ کا بیبر جو ہے اس نے سب سے زیادہ ترقی اس لیے کی عزت و احترام کیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو یہ چار پانچ فاﺅنڈی پروگرام جو ہیں ہو بنانے چاہیے جس میں ایجوکشن ہے گرین پولیو شن ہے ہیلتھ سیکٹر ہے آئی ٹی ایس سافٹ و ئرٹیکنالوجی باکس ہیں اور پانچ فاﺅنڈی پروگرام جو ہیں اس کے اوپر اسکل ڈیویلپمنٹس اور مین پاورز کی ایکسپورٹ جو ہے وہ سب سے امپورٹمنٹ ترجیح ہونی چاہیے تاکہ لوگو جو ہیں وہ ریولائز سیکٹر کے ساتھ باہر جا سکیں غیر ضروری ڈیپارٹمنٹس کو بند کر دینا چاہیے جو جتنا برڈن گورنمنٹ کے اوپر ہے جتنی زیادہ سیونگ کی جا سکتی ہے اس کے ساتھ خوشحالی آئے گی۔ جتنے بھی ڈیپارٹمنٹس جو ہیں اوور کلیپنگ کر رہے ہیں جس کی وجود نہیں ہے جو کام نہیں کر رہے ان کو فوری طور پر اوپر بند کر دینا چاہیے۔ ایگریکلچر سب سے بڑا فیکٹر ہے جس کے اوپر کام کرنا چاہیے اور سیکٹر کے اوپر پنجاب کے اندر 5 ایرزاہیبل ہیں ان فاﺅ سے نیوز کے اوپر کنسلٹنس کی ہائی کرکے کام کیا جائے اور اپ دیکھیں کہ یہ ملک جو ہے سب سے بڑا جو ہے وہ سپورٹربن سکتا ہے۔ پنجاب میں ایگرکلچر کی پروڈکٹس کا غیر ضروری ڈیپارٹمنٹس کو بند کر دیا جائے جو جتنا جتنے بھیڈیپارٹمنٹس جو ہیں اوور کلپنگ کر رہے ہیں جس کی وجود نہیں ہے جو کام نہیں کر رہے ان کو فوری طور پر اوپر بند کر نا چاہیے اسیسمنٹ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ کنسلٹینٹس کے ساتھ پوسری انکیمنٹ کے ساتھ پہلے سروے کیے جائے اتحیقیق کرکے پھر جو ہے وہ کام کرنا چاہیے اور یگرکلچر سب سے بڑا فیکٹر ہے جس کے اوپر کام کرنا چاہیے اور یگری سیکٹر کے اوپر پنجاب کے اندر 5 ایونیوزاویلبیل ہیں ان فاﺅ سے کے اوپر کنسلٹینٹس کو ہائی کرکے کام کیا جائے اور اپ دیکھیں کہ یہ ملک جو ہے بڑا جو ہے وہ ایکسپورٹربن سکتاہے۔

مزیدخبریں